پشاور سے متصل خیبرپختونخوا کے ضلع چار سدہ کے تاریخی حلقے این اے 24 پر 25 ستمبر کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے درمیان زبردست معرکہ متوقع ہے۔ انتخابات کو ایک مہینے سے زائد کا وقت باقی ہے۔ لیکن حلقے میں سیاسی جوش و خروش عروج پر ہے اور کارکنان اپنے لیڈرز کو جتوانے کیلیے ابھی سے میدان میں نکل پڑے ہیں۔
اس حلقے سے اے این پی کے سابق سربراہان خان عبد الولی خان، اسفندیار ولی خان، سابق صوبائی صدر بیگم نسیم ولی خان۔ جے یو آئی کی طرف سے معروف علمائے دین مولانا حسن جان شہید، مولانا گوہر شاہ۔ اور پی ٹی آئی کے فضل محمد خان نمائندگی کر چکے ہیں۔ 1970ء سے 2018ء تک ہونے والے 10 انتخابات میں اس نشست سے اے این پی 6 مرتبہ اور جے یو آئی 3 بار کامیابی حاصل کر چکی ہے۔ پی ٹی آئی کو ایک بار فتح ملی۔1970ء کے الیکشن میں یہاں سے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبد الولی خان 34359 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر بیگم نسیم ولی خان نے 48653 ووٹ حاصل کر کے کامیابی اپنے نام کی۔1988ء میں خان عبد الولی خان نے 63195 ووٹ حاصل کر کے فتح حاصل کی۔ تاہم 1990ء میں جے یو آئی کے مولانا حسن جان نے 66452 ووٹ حاصل کر کے عبدالولی خان کو شکست سے دوچار کر دیا۔ جس کے بعد ولی خان نے عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی۔ تاہم 1993ء میں اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے 56164، جبکہ 1997ء میں بھی اسفندیارولی خان نے 55059 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ لیکن 2002ء میں جے یو آئی کے مولانا گوہر شاہ 55917 ووٹوں کے ساتھ فاتح رہے۔
2008ء میں ایک مرتبہ پھر اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان نے 36835 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ تاہم جے یو آئی کے مولانا گوہر شاہ نے 2013ء میں دوبارہ 53610 ووٹ حاصل کر کے یہ نشست اپنے نام کرلی۔ 2018ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے فضل محمد خان نے 83596 ووٹوں کے ساتھ فتح حاصل کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ولی خان کی تیسری نسل پارٹی کی طرف سے اس نشست پر کامیابی حاصل کر پاتی ہے یا پھر پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی نشست کا دفاع کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے ضلع چارسدہ کی سیاسی و سماجی شخصیات کے علاوہ عام لوگوں سے بھی بات چیت کی گئی۔ جنہوں نے ملی جلی رائے کا اظہار کیا۔ چارسدہ سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے محمد حسیب کے مطابق چارسدہ کے عوام تینوں جماعتوں سے مطمئن ہیں اور سب نے اپنے دور میں بڑھ چڑھ کر عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لی ہے۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ پھراے این پی کو یہاں سے شکست کیوں ہوئی اور جے یو آئی کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ٹی آئی نے یہاں سے 80 ہزار سے زائد ووٹ لیکر تاریخ رقم کی۔ تو ان کا کہنا تھا، 2018ء کے الیکشن میں پورے ملک میں تبدیلی کی ہوا چلی تھی۔ چارسدہ کے عوام نے بھی اسی تبدیلی کے تناظر میں تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ اسی وجہ سے ان کو زیادہ ووٹ اور سپورٹ ملی۔ تاہم اس مرتبہ مقابلہ انتہائی کانٹے کا ہوگا۔
پی ٹی آئی کی طرف سے جو یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بڑے مارجن سے اے این پی کو شکست دیں گے۔ تو اے این پی کا بھی یہاں پر بہت زیادہ ووٹ بینک ہے۔ ہر الیکشن میں اس نے 50 ہزار سے زائد ووٹ لئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بار جے یو آئی کا ووٹ اے این پی کو پڑے گا۔ پیپلز پارٹی اور خاص کر قومی وطن پارٹی نے بھی اے این پی کی حمایت کی ہے تو اس کا فائدہ بھی اے این پی کو ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر ان تمام جماعتوں کے کارکنان اکٹھے ہوکر اے این پی کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں تو پھر مقابلہ سخت ہوگا اور اس کیلئے ان پارٹیوں کے رہنمائوں اور نمائندوں کو میدان میں نکلنا پڑے گا۔
چارسدہ کے رہائشی ملک جمشید نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔ دونوں پارٹیاں بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ حالانکہ ابھی الیکشن میں ایک مہینے سے زائد کا وقت ہے۔ لیکن چونکہ تحریک انصاف اور اے این پی بڑی حریف جماعتیں ہیں۔ اس لئے کامیابی کیلئے بھرپور زور لگایا جارہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے این پی یا تحریک انصاف کو فیورٹ قرار دینا قبل از وقت ہو گا۔ کیونکہ دونوں کا یہاں پر ووٹ بینک موجود ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اگر جے یو آئی (ف) کا تمام ووٹ اے این پی کو پڑ گیا تو پھر تحریک انصاف کیلیے صورتحال مزید سخت ہوجائے گی۔
’’امت‘‘ کی جانب سے چارسدہ فروٹ منڈی اور پُرفضا مقام سردریاب سمیت دیگر علاقوں میں کئے جانے والے سروے اور عوام کی رائے جاننے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف اور اے این پی دونوں نے ہی اس الیکشن میں جان لڑا دی ہے اور جیتنے کیلئے بھرپور کوششیں ابھی سے شروع کردی ہیں اور دونوں کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔ کسی ایک کو ابھی تک کسی دوسرے فریق پر برتری حاصل نہیں۔ پشاور کے حلقہ این اے 31 کے بعد خیبرپختون میں قومی اسمبلی کی چار نشستوں پر دوسرے نمبر پر سب سے بڑا ٹاکرا اے این پی کا تحریک انصاف کے ساتھ چارسدہ کی نشست پر ہوگا۔ پشاور شہر میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کو بری طرح شکست ہوئی ہے اور یہاں پر جے یو آئی کے حاجی محمد زبیر میئر منتخب ہوئے۔ جبکہ چار سدہ میں بھی اے این پی سمیت جے یو آئی کو بلدیاتی انتخابات میں حیران کن کامیابی ملی ہے۔