امت رپورٹ:
عالمی و مقامی کوہ پیمائوں نے ’’کے ٹو‘‘ کو کچرا دان بنا دیا ہے۔ مقامی وعالمی ماہرین نے اس خوبصورت مقام کے کچرا دان بننے اور ماحولیات کو پہنچے نقصان پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلند چوٹیوں پر کمند ڈالنے کے خواہش مندوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ساتھ لے جایا جانے والا تمام سامان خود واپس بھی لائیں گے۔ اس کیلیے ان کو اپنے پورٹرز کو اضافی ادائیگیاں کرنی چاہئیں یا متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو کوہ پیمائوں سے کچرے کی صفائی کا بجٹ پہلے ہی فیس کی شکل میں لے لینا چاہیے۔ کیونکہ جو کوہ پیما ایک ہزار ڈالر کا فضائی ٹکٹ اور سینکڑوں ڈالر کا رہائشی ہوٹل لے کر کوہ پیمائی کا جوکھم اٹھاتے ہیں۔ ان سے دو سو ڈالر کی رقم لے کر بلند برفیلی چوٹی کو صاف رکھا جانا بیحد ضروری ہے۔
’’کے ٹو‘‘ پر کوہ پیمائی کی نگرانی کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ امسال درجنوں کوہ پیمائوں نے ’’کے ٹو‘‘ کی برفیلی چوٹی کو سرنگوں کیا ہے۔ لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں گزشتہ چار دہائیوں کی نسبت سب سے زیادہ کچرا جمع ہوچکا ہے۔ جس کو صاف کرنا یا نیچے لاکر ٹھکانے لگانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑ ی چوٹی K2 ہے۔ جو سطح سمندر سے 8611 میٹر کی اونچائی پرواقع ہے۔ جمع ہونے والے کچرے میں خالی آکسیجن سلنڈرز، ادویات کے ڈبے، خوراک کے خالی پیکٹ، رسیاں، استعمال شدہ جوتے، کپڑے، دستانے اور انسانی فضلہ بھی شامل ہے۔
عالمی ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ کمرشلائزیشن کی پالیسی نے پہلے نیپالی چوٹی مائونٹ ایورسٹ کو کچرہ دان بنایا۔ اب یہی کام پاکستان میں خوبصورت کوہستانی چوٹی ’’کے ٹو‘‘ پر بھی شروع ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ رواں ہفتہ سوشل میڈیا پر کوہ پیمائی سے وابستہ واٹس اپ گروپس میں نیپالی کوہ پیما اور ایلیٹ ایکس پیڈیشن کمپنی کے بانی نرمل پرجا کی شیئر کردہ ایک اہم ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ جس میں نرمل پرجا ’’کے ٹو‘‘ پر جمع کچرے کے ڈھیر کی متحرک تصاویر دکھاکر اس کچرے کی صفائی کیلئے عطیات طلب کر رہے ہیں۔ اس ویڈیو پر پاکستانی حکام نے شدید اعتراض کیا ہے۔ نیپالی جریدے ’’کاٹھ منڈو پوسٹ‘‘ نے بھی یاد دلایا ہے کہ نرمل پرجا اس سے پہلے گزشتہ برس مارچ میں بھی ’’کے ٹو‘‘ کی ایسی ہی صفائی مہم چلا کر مال اینٹھ چکے ہیں۔ رواں گرما میں K2 کی مہم جوئی پر آنے والی امریکی خاتون کوہ پیما سارہ اسٹریٹن کہتی ہیں کہ وہ کے ٹو پر کچرے کے ڈھیر دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئیں۔ وہاں بیس کیمپ سے اوپر تک کم و بیش پورے ہی راستے پر کوڑے کے ڈھیر پھیلے ہوئے تھے۔ اپنے انسٹاگرام اکائونٹ پر امریکی کوہ پیما سارہ نے لکھا کہ کیمپ ون اور ٹو انتہائی گندے ہیں اور ہر طرف حالیہ و گزشتہ مہ و سال میں ایکس پیڈیشن پر آنے والے کوہ پیمائوں، پورٹرز اور دیگر افراد کا فضلہ جا بجا موجود ہے۔
امریکی کوہ پیما کا کہنا تھا کہ مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ یہاں آنے والے تما م ہی کوہ پیما اور ان کے معاونین پرانے سامان، فضلے، استعمال شدہ خیموں، ریپرز اور خوراک کے خالی ڈبوں اور استعمال شدہ کھانے کی پیکیجنگ اور ایندھن کے کین کے اوپر اپنا کیمپ نصب کر رہے تھے۔ کے ٹو پرکچرے اور فضلے کے حوالہ سے سارہ اسٹریٹن رقم طراز ہیں کہ ہائیر کیمپ تھری اور فور جو 7162 میٹر اور 7620 میٹر پر واقع ہیں، یہاں صورتحال قدرے بہتر تھی۔ لیکن پہلے جیسی صاف بھی نہیں تھی اور بیس کیمپ سے سمٹ (چوٹی) تک پورے کلائمنگ روٹ پر کچرا ہی کچراپھیلا ہوا تھا۔کئی پورٹرز اور کوہ پیمائوں کا کہنا ہے کہ کچرے کے ان ڈھیروں سے صحت و صفائی کا مسئلہ ہے۔ لوگ بیمار ہوسکتے ہیں اور یہ سب دیکھ کر صرف دکھ ہی نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کچرا تو کوہ پیمائوں کیلئے اوپر چڑھائی میں بھی سنگین خطرے کا سبب بن سکتا ہے۔ کیونکہ پرانی اور خراب ٹوٹی ہوئی فکسڈ لائنز رسیوں کے ڈھیر میں سے صحیح رسی کا انتخاب نا ممکن تھا۔
کئی کوہ پیمائوں کا کہنا ہے کہ کے ٹو اور راستے پر کچرے کی صفائی کیلئے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان یعنی سی کے این پی سے منسلک اہلکار متحرک ہیں۔ وہ صاف صفائی کا کام حتی المقدور کرتے ہیں۔ چونکہ یہ اہلکار عموماً بیس کیمپ تک محدود رہتے ہیں۔ اسی لئے اصل مسئلہ ’’ہائی الٹی ٹیوڈ ‘‘ یعنی انتہائی بلند کیمپوں سے کچرا نیچے لانا اور اس کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔ ستائیس جولائی 2022ء کو پیرو سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما فلور کوئن کا، نے پاکستان کے قراقرم پہاڑی سلسلہ پر واقع اس عظیم پہاڑ کو ’’پگ سٹی‘‘ یعنی غلاظت سے بھرپور مقام قرار دیا اور انہوں نے کوہ پیمائی کا اہتمام کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اس تباہی یعنی کچرے وغلاظت کا ذمے دار ٹھیرایا۔ پیرو کے کوہ پیما نے اپنے انسٹا گرام اکائونٹ پر پوسٹ میں لکھا کہ ٹوور کمپنیاں کلائنٹس کے آرام کیلئے بہت زیادہ سامان منگواتی ہیں، لیکن کچرا صاف کرنے سے کتراتی ہیں۔ فلور نے بوجھل دل کے ساتھ سوال رقم کیا کہ ہم کوہ پیما پہاڑوں کیساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ سارا فضلہ اور کچرا جادو سے غائب ہو جائے گا یا پھر کوئی اور آ کر اس کی صفائی کرے گا؟
گزشتہ ماہK2 سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ کیمپ ون اور ٹو تو گندے ہیں لیکن کچھ اوپر اتنی بری صورتحال نہیں تھی جتنی نرمل پرجا کی ویڈیو میں دکھائی جارہی تھی۔ نائلہ کا استدلال ہے کہ انسانی فضلے کا تو مسئلہ سمجھ میں آتا ہے کیونکہ وہاں کوئی اور دور مقام ایسا نہیں کہ رفع حاجت کہیں اور جاکر کریں۔ لیکن زیادہ تر کوہ پیما اور معاونین ماؤنٹین ہارڈ ویئر، ڈبے اور پرانے ٹینٹ اور بیگ وغیرہ چھوڑ دیتے ہیں، اس پران کی گرفت ہونی چاہیے۔ کوہ پیمائی کے دوران سمٹ پر پندر ہ سے بیس پونڈ وزنی کچرا پیدا ہوتا ہے جس میں لاوارث خیمے، آکسیجن کے ڈبے، خوراک اور پانی کے برتن، بچا ہوا سامان اور انسانی فضلہ بھی شامل ہیں۔ تمام کوہ پیمائوں اور ماہرین کا متفقہ نکتہ یہی ہے کہ کچرا صاف کرنے کی ذمے داری پرمٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کی ہوتی ہے تاکہ وہ صفائی کے حوالے سے کوہ پیمائی کے بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھیں۔ اگرچہ پاکستان میں پہاڑوں پر سے کچرا صاف کرنیکی ذمہ داری حکومتی سطح پر محکمہ ٹورازم گلگت بلتستان کی ہے اور متعلقہ محکمہ کوہ پیمائی کیلئے کسی بھی کمپنی کو پرمٹ دیتے وقت ان سے مقررہ رقم وصول کرتا ہے۔ تاکہ سیزن کے اختتام پر کچرا صاف کیا جا سکے۔
میڈیا گفتگو میں ڈائریکٹر ٹوراز، گلگت بلتستان یاسر حسین نے بتایا کہ اس مرتبہ ریکارڈ تعداد میں کوہ پیما ’’کے ٹو‘‘ پہاڑ سر کرنے آئے جن میں سے بہت سے کوہ پیما اور کمپنیاں اپنا کچرا چھوڑ کر چلے گئے۔ ’’کے ٹو‘‘ پر کچرے کی موجودگی کا اعتراف کرنیوالے یاسر حسین کی دلیل ہے کہ اس سیزن میں کوہ پیمائوں رش زیادہ تھا اور گلگت بلتستان حکومت کو چونکہ اس حوالہ سے صفائی ستھرائی و انتظام سمیت ٹریکنگ کی ذمہ داری جون2022ء میں ملی ہے، اسی لئے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان کیلیے صفائی ایک مشکل ٹاسک اورنیا تجربہ بنا۔ یاسر کا دعویٰ تھا کہ سال میں ’’کے ٹو‘‘ سمیت تمام پہاڑو ں کی کم از کم دو بار صفائی کی جائے گی۔ صفائی کیلئے دو جولائی سے لے کروسط اگست تک ایک درجن کارکنوں کی ایکس پیڈیشن فورس نے کیمپ ون سے فور تک مکمل صفائی کی اور 1610کلو گرام کچرا جمع کیا ہے۔ یاسر حسین کا کہنا تھا کہ اس سیزن میں لیاژان آفیسر نے تین چار ایسی غیر ملکی کمپنیوں کی شکایات کی ہیں جو اپنا سامان واپس نہیں لائیں۔ کمپلین کے بعد ہم نے ان کیخلاف ایکشن لیا ہے اور ان کو تسلی بخش جواب نہ ملنے پر بلیک لسٹ کیا جائے گا۔