جاپان میں ایک شہری ایسا بھی ہے، جو کام چورنہیں لیکن اس کا کوئی بزنس بھی نہیں اور نہ ہی کوئی با قاعدہ ملازمت کرتا ہے۔ اس کے باوجود اس کو روزانہ سینکڑوں ڈالر آمدنی ہو رہی ہے اور سوشل سائٹس پرلاکھوں مداحوں کی صورت میں عالمی مقبولیت بھی مل چکی ہے۔
ٹوکیو کے رہائشی اڑتیس سالہ شیوجی موریموتو کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ کام پر جاتے ہیں اورکلائنٹس کو خود کو کرائے پردے کر70 ڈالر فی گھنٹہ کی خطیر رقم کمالیتے ہیں۔ شیوجی موریموتو کہتے ہیں کہ ان کوماضی میں پچھلی ملازمتوں پراکثر باس کی ڈانٹ پھٹکار سننی پڑتی تھی کہ سارا دن گزار لیتا ہے اورکام کچھ کرتا نہیں ۔ اسی الزام پر ان کو دسیوں کمپنیوں سے باہر نکالاجاچکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک اچھوتا آئیڈیا سوچا اوراس پرعمل بھی کیا۔ شیوجی موریموتو کا کہنا تھا کہ انہوں نے طے کرلیا کہ وہ کبھی بھی کچھ بھی نہیں کریں گے اورکچھ نہ کرنے کی تنخواہ وصولیں گے۔
جاپانی شہری خود کو 70 ڈالر فی گھنٹہ کرائے پر دیتا ہے
’’روئٹرز‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شیوجی موریموتو ایسا انوکھاکام کر رہے ہیں جس میں انہیں 10 ہزار ین یا ستر ڈالرفی گھنٹہ بطور مشاہرہ ملتے ہیں اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان کا کام صرف اپنے کلائنٹس کے ساتھ بطور ساتھی رہنا ہے۔ شیوجی کا کہنا ہے کہ وہ ملازمت کے وقت اور مشاہرے کا تعین کرتے ہوئے صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ اس ملازمت کا واحد مقصد کلائنٹ کو’’دسراہٹ‘‘ کا احساس دلانا ہے۔ باقی کوئی سامان اٹھانا، کچھ لکھنا پڑھنا، کسی قسم کی مدد کرنا ان کا کام نہیں ۔ وہ دن بھر یا مقررہ مدت کیلیے ساتھ رہتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور مسکراتے ہیں تاکہ ان کے کلائنٹس سے ملاقات کرنے والے افراد کو اس بات کا احساس ہوجائے کہ وہ تنہا نہیں بلکہ دو ہیں۔ کلائنٹس کا ماننا ہے کہ وہ اس دلچسپ نوکری کیلیے شیوجی موریموتو کو بخوشی ہائر کرتے ہیں اوران کو وقت سے پہلے ہی ادائیگی کردیتے ہیں۔
کچھ نہ کرنے کی تنخواہ
شیوجی موریموتو نے بتایا کہ بنیادی طور پر میں نے اپنی ذات کو ’’رینٹ‘‘ پر دے رکھا ہے۔ معاہدوں کے مطابق میرا کام صرف یہ ہے کہ کلائنٹس مجھے جہاں اور جب دیکھنا چاہتے ہیں، میں وہاں موجود رہتا ہوں۔ ساتھ چلنے اور ساتھ رہنے کے سوا کلائنٹس کیلئے میرا کوئی اور خاص کام نہیں۔ سادہ ڈیل ڈول کے شیوجی موریموتو کے ٹوئٹر اکائونٹ پر چار لاکھ کے لگ بھگ مداح ہیں جن میں سے بیشتر ان ہی کے کلائنٹس ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ان کو سینکڑوں سے زیادہ مرتبہ ملازمت پر رکھا ہے۔ موریموتو کو چند ماہ قبل ہی کمبوڈیا سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ پتی کی جانب سے ملازمت کی اچھی آفر ملی تھی۔ لیکن موریموتو نے اس بہترین پیشکش کوٹھکرا دیا۔ کیونکہ کمبوڈیا کے شخص نے ان سے یہ مطالبہ رکھا تھا کہ وہ جاپان سے کمبوڈیا منتقل ہوجائیں۔
پچھلے ماہ اگست میں موریموتو اپنی بھارتی کلائنٹ ستائیس سال ارونا چڈھا کے ساتھ ریستوران میں کرسی پر براجمان تھے اور سامنے رکھی گرما گرم چائے اور کیک پیسٹریز کی لذت پر گفتگو میں مشغول تھے۔ میڈیا سے گفتگو میں ارونا چڈھا کا کہنا تھا کہ اس نے شیوجی کو اس لیے ’’دسراہٹ ‘‘والی ملازمت پر رکھا ہے کہ وہ بازار اور سڑک پر شام اور رات کے وقت بھارتی ثقاتی لباس ساڑھی پہن کر باہر نکلنا اور چلنا پھرنا چاہتی تھی۔ لیکن اس کو یہ فکر لاحق تھی کہ شاید اس کے دوستوں کو شرمندگی اٹھانا پڑے گی یا جاپانی شہری ان کو دیکھ کر حیرت و استعجاب کا مظاہرہ کریں گے۔
ارونا کا کہنا ہے کہ بس اسی لیے اس نے شیوجی موریموتو سے رابطہ کیا۔ شیوجی موریموتو کا استدلال ہے کہ مجھے سابقہ دفاتر اور اداروں میں یہی طعنہ ملتا تھا کہ میں کچھ کرتا نہیں ہوں اورمیں اکثر اس غور و فکر میں غلطاں رہتا تھا کہ میں اپنی کچھ نا کرنے کی صلاحیت کو بطور سروس کلا ئنٹس کو فراہم کروں تو کیا میں پیسہ کما سکتا ہوں؟ اور یہی اب ان کا آمدنی کا ذریعہ ہے اور اسی اچھی کمائی سے وہ اپنے کنبہ کو اچھے انداز سے پال رہے ہیں۔