پنجاب حکومت کی تبدیلی زرداری کا نیا ہدف

نواز طاہر:
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی دو اہم جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں سیاسی عمل میں تعطل ختم کرکے متحرک ہونے کے امکان پیدا ہوگئے ہیں۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی قیادت لندن میں جمع ہورہی ہے تو وسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے لاہور میں ڈیرے ڈالنے کا فیصلہ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا ٹارگٹ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی ہوسکتا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین پنجاب میں سیاسی تحرک کو موجودہ حالات میں ثمر آور قرار نہیں دے رہے۔
واضح رہے کہ ایک ہفتے سے پنجاب حکومت کی تبدیلی کے عمل کی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مقامی رہنمائوں نے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔ اسی دوران مسلم لیگ ن کی قیادت لندن میں جمع ہورہی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے اگلے ہفتے سے لاہور میں ایک ہفتے تک قیام کی خبریں ہیں، جن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ پنجاب میں تبدیلی کیلئے کوئی نیا فارمولا اور پلان آگے بڑھائیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی ذرائع سے تاحال اس جماعت کے سربراہ کی ایک ہفتے تک لاہور میں قیام کرنے کے پلان کی تصدیق نہیں کی جار ہی۔ بلاول ہائوس کراچی اور پنجاب میں سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے رہنمائوں نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی۔ البتہ یہ کہا جارہا ہے کہ ان کے قائد کی آمد کی خبریں ہیں، مگر انہیں اس ضمن میں باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی شیڈول کے بارے میں تاحال بتایا گیا ہے۔
اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما چودھری منور انجم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی فلاحی ترقی اور سیاسی شعور کا نظریہ رکھنے والی جماعت ہے۔ ان دنوں ملک سیلاب میں ڈوباہوا ہے۔ سب سے ابتر صورتحال صوبہ بلوچستان اور سندھ کی ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دو اضلاع میں بھی سیلاب کی بدترین تبارہ کاریاں سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا فوکس سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی امداد اور بحالی ہے اور یہ دن کسی کے بھی سیاست چمکانے کے نہیں ہیں، نہ ہی پیپلز پارٹی اپنی سیاست چمکانے پر کھی فوکس کرتی ہے۔ یہ ہمیشہ قومی ایشوز کی بات کرتی ہے۔ حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کی صورتحال کی پارٹی کی سطح پر بھی مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ یہی واحد قومی ایشو اس وقت پارٹی کے پیشِ نظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاحال پارٹی لیڈر کی لاہور میں ایک ہفتے تک قیام کے پروگرام کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے۔ تاہم میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر آصف علی زرداری لاہور میں قیام کرتے ہیں تو ان کا فوکس سیلاب متاثرین کی بحالی اور امداد میں پارٹی کے رہنمائوں اور کارکردگی پر زیادہ ہوگا۔
یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سیلاب کی صورتحال کا جائزہ لینے کے دوران جنوبی پنجاب میں متعدد مقامات پر پیپلز پارٹی کے مقامی رہنمائوں اور کارکنوں نے نمائندہ امت کو بتایا تھا کہ مواصلاتی رابطے (سڑکوں کی بحالی) کے فوری بعد پیپلز پارٹی کی قیات ان علاقوں کا دورہ کریگی۔ جہاں جہاں پانی بہت زیادہ ہونے اورراستے نہ ہونے کی وجہ سے رسائی ابھی ممکن نہیں ہے۔ اس کی جزوی طور پر تصدیق منور انجم نے بھی کی ہے کہ پارٹی قیادت کا فوکس سیلاب متاثرین ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہمیشہ تبدیلی کا عمل آئینی طریقِ کار کے تحت چاہتی ہے اور پنجاب میں حکومت کی تبدیلی ایک لازمی امر ہے۔ صوبے کے عوام کیلئے یہان تبدیلی ناگزیر ہے۔ کیونکہ اس وقت صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی کوئی عوام کا پُرسان حال ہے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت بھی لندن میں جمع ہورہی ہے اور اس کا اہم مشاورتی اجلاس کل پیر کو پارٹی کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کی صدارت میں ہورہا ہے جس میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی شرکت کو بھی انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے۔ جبکہ ان کے علاوہ اسحاق ڈار سمیت سابق وزرا بھی شریک ہوںگے۔

اس اجلاس کے بارے میں پارٹی کے ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ بنیادی طور پر پاکستان میں سیاسی صورتحال، مہنگائی اور سیلاب زدگان کی امداد و بحالی کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتحال پر غور ہوگا اور پنجاب میں حکومت کی تبدیلی پر بھی غور کیا جائے گا۔ لیگی ذرائع کے مطابق اجلاس میں مسلم لیگ کی تنظیمی صورتحال کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور سرکاری و تنظیمی عہدے الگ الگ کرنے کا فیصلہ بھی ممکن ہے۔ مسلم لیگ ن کی مقامی قیادت کے مطابق سیاسی حالات اگلے ایک دو ماہ صوبے میں تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں اور پی ڈی ایم کی قیادت کو اس کا مکمل ادراک ہے۔ لندن مشاورتی انلاس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت میں بھی مشاورت ہوگی اور اس کے بعد تبدیلی کے عمل کی طرف پیش رفت ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تبدیلی کیلئے ایک بارپھر ٹارگٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری ہی کو سونپاجائے گا اور سیاسی بساط بھی وہی بچھائیں گے۔