امت رپورٹ:
لندن میں نون لیگ کے تا حیات قائد نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مابین تقریباً ساڑھے تین گھنٹے تک ہونے والی ملاقات کی اصل تفصیلات فی الحال دیگر پارٹی رہنمائوں سے مخفی رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود نون لیگی قیادت ان تفصیلات سے تاحال لاعلم ہے۔ حتیٰ کہ لندن جانے والے دونوں اہم وفاقی وزرا کو بھی اس سے بے خبر رکھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے چل کر ان سب کو اس حوالے سے کسی حد تک شاید اعتماد میں لے لیا جائے۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کے دفتر میں، جو پچھلے تین برس سے نواز شریف کا سیاسی ہیڈ کوارٹر بنا ہوا ہے، اتوار کو شریف برادران کے مابین ہونے والی طویل ملاقات کے موقع پر خاندان کے تین افراد، اسحاق ڈار ، حسن نواز اور سلیمان شہباز کے علاوہ کوئی پارٹی رہنما موجود نہیں تھا۔ حیرت انگیز طور پر وہاں موجود نون لیگ کے سینئر رہنما خواجہ آصف اور مریم اورنگ زیب کو اس اہم میٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا۔ خواجہ آصف ، وزیر دفاع اور مریم اورنگ زیب ، وفاقی وزیر اطلاعات ہیں۔ یعنی دونوں اہم وزارتیں رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں میٹنگ میں نہیں بلایا گیا۔ یوں ایک طرح سے یہ خالصتاً خاندان کے قریبی لوگوں کے درمیان ہونے والی ایک بیٹھک تھی، جس میں ملک کی قسمت سے متعلق اہم فیصلے اور مشاورت کی گئی۔ سب کو معلوم ہے کہ اسحاق ڈار، نواز شریف کے سمدھی، حسن نواز، نواز شریف اور سلیمان شہباز، وزیراعظم شہباز شریف کے صاحبزادے ہیں۔ تاہم جب نواز شریف اور شہباز شریف کے مابین ہونے والی اہم میٹنگ اختتام پذیر ہوئی تو تب ہی پاکستان سے لندن پہنچنے والے دونوں وفاقی وزرا کے علاوہ طارق فاطمی اور احد چیمہ کو نواز شریف کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا۔
واضح رہے کہ لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف کے مابین ہونے والی اہم میٹنگ کے بارے میں نون لیگ نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ پر بھی کچھ نہیں بتایا۔ تاہم اس میٹنگ کے بعد خواجہ آصف، طارق فاطمی، مریم اورنگ زیب، حسن نواز اور سلیمان شہباز کی نواز شریف سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بھی مختصراً اتنا کہا کہ اس ملاقات میں ملک کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ جبکہ نواز شریف سے ملاقات کے بعد حسین نواز کے دفتر سے نکلنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافیوں سے انتہائی مختصر بات کی اور میٹنگ کے بارے میں خاموش رہے۔ البتہ میڈیا نے اپنے ذرائع کے حوالے سے نواز شریف اور شہباز شریف کی میٹنگ کے بارے میں جو خبریں چلائیں، وہ ایک جیسی تھیں۔ ان خبروں کا لب لباب یہ تھا کہ ملاقات میں موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کیا گیا، یعنی عام انتخابات قبل از وقت نہ کرانے پر اتفاق ہوا۔ اسی طرح پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے گفتگو ہوئی، جبکہ نومبر میں ہونے والی اہم تقرری پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے پاکستان میں موجود ایک سے زائد نون لیگی رہنمائوں سے آف دی ریکارڈ اس ملاقات کی اصل تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم یہ تمام رہنما میٹنگ کی تفصیلات سے لاعلم نکلے۔ انہیں بھی صرف اس حد تک معلوم تھا، جو میڈیا میں آچکا ہے۔ ایک لیگی رہنما کے بقول یہ کامن سینس کی بات ہے کہ شریف برادران کے مابین ملک کے موجودہ سیاسی حالات پر یقینا بات ہوئی ہوگی۔ جس میں پنجاب میں ممکنہ تبدیلی اور نومبر میں ہونے والی اہم تقرری کا ایشو شامل ہوگا۔ یہی کچھ میڈیا میں بھی آیا ہے۔ اس میں بریکنگ والی کوئی بات نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان اہم ایشوز کے حوالے سے فیصلے کیا ہوئے؟ اس بارے میں فی الحال کسی کو کچھ نہیں معلوم ہے۔ لیگی رہنما نے اعتراف کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اس حوالے سے ان سمیت پاکستان میں موجود دیگر نون لیگی قیادت فی الحال بے خبر ہے۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف وطن واپسی پر یقینا اس بارے میں کابینہ کو اعتماد میں لیں گے۔ کیونکہ اس نوعیت کی باتیں فون پر نہیں کی جاسکتیں۔
واضح رہے کہ برطانوی حکومت کی دعوت پر آنجہانی ملکہ الزبتھ دوم کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے ہفتے کی رات لندن پہنچنے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کے روز ان رسومات میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ شیڈول کے مطابق شہباز شریف اب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس میں شرکت کے لئے انیس سے تئیس ستمبر تک نیویارک میں ہوں گے۔
لندن میں شریف خاندان سے قریبی ذرائع کے مطابق فی الحال پارٹی قائد نواز شریف اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اس اہم میٹنگ میں ہونے والے فیصلوں کو فی الحال مخفی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لندن میں موجود خواجہ آصف اور مریم اورنگ زیب کو بھی اس میٹنگ میں شامل نہیں کیا گیا۔
ان ذرائع کے بقول دونوں وفاقی وزرا کو میٹنگ سے دور رکھنا طے شدہ تھا۔ اس سے انہیں پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ نواز شریف فی الحال نہیں چاہتے کہ اہم ترین ایشوز پرکیے جانے والے فیصلے میڈیا کی زینت بنیں۔ لہٰذا میٹنگ میں خاندان کے افراد کے علاوہ کسی کو نہیں بٹھایا گیا۔ تاکہ میٹنگ کی تفصیلات مخفی رکھنے کو یقینی بنایا جاسکے۔ بظاہراس سے دونوں وفاقی وزرا پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بارنہیں ہوا۔ رواں برس مئی میں جب شہباز شریف اپنی دس رکنی کابینہ کے ہمراہ نواز شریف سے اہم ملکی معاملات پر مشاورت کرنے لندن پہنچے تھے تو تب بھی اسی نوعیت کی رازداری برتی گئی تھی۔ ذرائع نے اس وقت چلنے والی ان خبروں کی طرف بھی توجہ دلائی، جن میں کہا گیا تھا کہ میٹنگ میں شریک نون لیگی رہنمائوں سے حلف لیا گیا تھا کہ وہ اجلاس کی تفصیلات کو لیک نہیں کریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ نون لیگ آج بھی بظاہر اس طرح کے کسی حلف کی تردید کرتی ہے۔