محمد نواز طاہر:
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان پنجاب حکومت سے انتقامی سیاست کے خواہاں ہیں۔ وہ اپنی ذات اور پنجاب حکومت کے بارے میں عدمِ تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ تاہم پنجاب حکومت بچانے کیلئے پی ٹی آئی میں صوبائی سطح پر بظاہر مکمل اتحاد موجود ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد ریت کے ذروں کی طرح کسی وقت بھی بکھر سکتا ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ان کے ساتھ رابطے میں ہیں ۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے پنجاب حکومت گرائے جانے کی کوششوں کی اطلاعات، مسلم لیگ ن کے لندن مشاورتی اجلاس اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے لاہور میں ایک ہفتے کیلئے ڈیرے ڈالنے کی اطلاعات کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں زیر سماعت مقدمات کے پیشِ نظر اپنی جماعت کے اہم اراکین کو اسلام آباد طلب کیا تھا۔ اجلاس میں تمام صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اب تک مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق عمران خان نے پارٹی کے سامنے کچھ تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ انہوں کچھ پارٹی رہنمائوں کو ببیان بازی سے روکنے کی ہدایت کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو اپنے مخالفین کے ساتھ سختی کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
اسلام آباد میں اجلاس کے حوالے سے مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی صورتحال کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ نے اپنے ہی کچھ ساتھیوں کے نام لیے بغیر شکوک اور تحفظات کا بھی اظہار کیا اور انہیں محتاط رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی۔ پیر کے روز پنجاب میں ان ہدایات پر عملدرآمد ہوتا دکھائی دیا ہے اور اس جماعت کے اراکین کو لگی ’چُپ‘ کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا۔ پیر کی شام صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پنجاب کابینہ کے اراکین اور اراکینِ اسمبلی نے صحافیوں سے گفتگو کرنے سے گریز کیا۔ تاہم ذاتی حیثیت میں کچھ مخصوص صحافیوں سے آف دی ریکارڈ گفتگو بھی کی۔
پنجاب میں میڈیا سے گفتگو کرنے اور پاکستان تحریکِ انصاف کی سب سے زیادہ وکالت کرنے والے وزرا میاں اسلم اقبال اور فیاض الحسن چوہان خاص طور پر صحافیوں کے اصرار کے باوجود بات چیت کیے بغیر خاموشی سے گزر گئے اور حال احوال تک محدود رہے۔ اسی طرح کابینہ کے دیگر اراکین اور وہ اراکین بھی پارٹی کے امور پر گفتگو سے پرہیز کرتے رہے، جو ایک روز پہلے تک گفتگو میں پیش پیش رہتے تھے۔ اس’چُپ‘ کی پی ٹی آئی ہی کے کچھ اراکین نے تصدیق بھی کی ہے اور بتایا کہ انہیں پارٹی پالیسی پر بات کرنے سے روکا گیا ہے اور وہ پارٹی کے ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتے۔ ان اراکین نے اس امر کی بھی تصدیق کی کہ پارٹی کے سربراہ کچھ ساتھیوں کے بیانات پر تحفظات بھی رکھتے ہیں اور ناخوش بھی ہیں۔
پی ٹی آئی کے اراکین وثوق کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ پنجاب میں ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ جب اپویشن لیڈر ہی اسمبلی میں نہیں آتا اور ساری اپوزیشن، فرینڈلی رول پلے کررہی ہے تو تبدیلی کس نے لانی ہے؟ ان اراکین کے مطابق حکومت سازی اور حکومتی امور میں اگرچہ کچھ معاملات میں وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی سے کچھ اختلافِ رائے رکھتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس اختلاف رائے کی وجہ سے پنجاب کی حکومت ختم کروانے میں پی ٹی آئی کا کوئی رکن کسی کا مہرہ بنے۔ خاص طورپر پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعداس کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق عمران خان نے ساتھیوں کو کسی بھی قسم کے مشکل حالات کے مقابلے کی تیاری کی ہدایت ضرور کی ہے، جس کے تحت تمام اراکین اسمبلی ہمپ وقت رابطے میں رہیں گے تاکہ اسلام آباد یا لاہور میں کسی وقت ضرورت پڑے تو دھرنے کیلئے بھی مکمل تیاری ہو۔ پی ٹی آئی کے ذرائع یہ تصدیق پہلے ہی کرچکے ہیں کہ پنجاب میں کسی وقت بھی اسمبلی معطل کرکے گورنر راج لگنے کا خطرہ موجود ہے اور اسی وجہ سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے موخر نہیں کیا جارہا۔ بلکہ اس کا تسلسل برقرارکھا جارہا ہے۔ جبکہ اسمبلی کے بزنس کے حوالے سے دستیاب ایجنڈا دو تین روز میں مکمل ہوسکتا تھا۔ لیکن اسے ایک ایک ہفتے یا اس سے بھی زیادہ مدت کیلیے ملتوی کیاجاتا ہے۔
پیر کے روز ہونے والا اجلاس بھی پچھلے ہفتے اٹھائیس ستمبر تک ملتوی کیا گیا تھا۔ لیکن بعد اس میں تبدیلی کرکے پیر کے روز اجلاس کیا گیا ہے۔ دوسری جانب گورنر پنجاب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ تاحال زیر غور نہیں۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے یا کسی اور ’موو‘ کی صورت میں پنجاب میں گورنر راج کے خطرات منڈا لارہے ہیں اور پارٹی چیئرمین عمران خان اس خدشے کو شدت سے محسوس کرتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کے اجلاس کے حوالے سے مسلم لیگ ن نے اشارہ دیا ہے کہ اس اجلاس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے حوالے سے پی ٹی آئی اراکین نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے اراکین اور مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی میں رابطوں کے حوالے سے مسلم لیگ ن پنجاب کی رہنما عظمیٰ بخاری نے ’’امت‘‘ کے استفسار پر بتایا کہ، پی ٹی آئی کے اراکین خودرابطے میں ہیں۔ پی ٹی آئی اب تنکوںکی طرح بکھرنے والی ہے۔ تاہم انہوں نے رابطہ کرنے والے پی ٹی آئی اراکین کی تعداد نہیں بتائی۔
اس سے پہلے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، جس طرح پی ٹی آئی میں لوگوں کو اکٹھا کیا گیا ہے، اسی طرح لوگوں کی واپسی بھی ہونے والی ہے ۔ اور عمران خان کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر جاوید لطیف اور پی ٹی وی کے حکام کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرنے کا ٹویٹ پنجاب کے وزیر داخلہ نے خود کیا ہے۔
ادھر پیر کی شب پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود کثرتِ رائے سے صوبائی وزیرداخلہ ہاشم ڈوگر کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کی منظور ی دی ہے۔ جس میں عمران خان کیخلاف نفرت انگیز ی پھیلانے کے الزام میں جاوید لطیف مریم اورنگزیب اور پی ٹی وی کے ڈائریکٹر کرنٹ افئرز کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ مسلم لیگ ن نے اسے عمران خان کی خوشنودی کیلئے صوبائی حکومت کا بوکھلاہٹ پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔