لندن (امت رپورٹ ) غداری کے الزامات کے تحت کئی برس تک راندہ درگاہ بنے رہنے والے ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلاوطن قائد الطاف حسین کو ایسا لگتا ہے ایک بار پھر کراچی کی سیاست میں بالواسطہ "انٹری” دینے کی تیاری کر لی گئی ہے۔
اس حوالے سے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض اہم حلقوں نے بعض اہم یقین دہانیوں کے عوض الطاف کے لیے نرم گوشہ پیدا کرلیا ہے، تاہم معاملے کے آگے بڑھنے کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ متحدہ قائد کی جانب سے متعلقہ حلقوں کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے ۔اس حوالے سے ابتدائی طور پر الطاف حسین نے غیر روایتی میڈیا اور ایک یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنا تفصیلی مقدمہ پیش کردیا ہے جس میں زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ ان کا فوج یااسٹبلشمنٹ کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں. وہ تو مظلوم عوام کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے حقوق دلانے کے مشن پر قائم ہیں اور یہی ان کی پارٹی کا منشور ہے ۔ اپنے طویل، گھسے پٹے اور تکرار کے ساتھ ادا کیے گئے جملوں میں انہوں نے گویا متعلقہ حلقوں کو یقین دلایا کہ اگر انہیں معاف کر کے سیاست میں دوبارہ انٹری دے دی جائے تو وہ دوبارہ "اچھا بچہ” بن کر رہیں گے ۔
واضح رہے کہ الطاف حسین کے مذکورہ انٹرویو کے ساتھ ہی ان کے حامیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک جارحانہ مہم بھی شروع کردی گئی ہے جس میں حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان کی نا اہلی ،مفاد پرستی اور مہاجر حقوق سے لاتعلقی کو نمایاں کرکے پیش کیا جا رہا ہے، اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ لاوارث کراچی الطاف جیسے ہی مسیحا کا منتظر ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے سلگتے مسائل کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم لندن کی مردہ روح کو زندہ کرنے کے لیے "مظلومیت” کاتڑکا لگانا بھی ضروری سمجھا گیا اور نائن زیرو پرآتشزدگی کے بعد عمارت کی مسماری اور پھر خورشید میموریل ہال کی باری دراصل متحدہ لندن قیادت کی باری لگوانے کی تیاری کا حصہ ہے جس کے بعد اگلے مرحلے پر "گراؤنڈ آپریشن” شروع ہونے جا رہا ہے جس کیلئے الطاف کی آشیرباد سے سندھ کی طویل ترین گورنری کا لطف اٹھانے والے ڈاکٹر عشرت العباد کو میدان میں اتارا جا رہا ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان سے حکمت عملی کے تحت فاصلہ رکھنے والے ڈاکٹر فاروق ستار بھی اس کھیل کا اہم کردار ہوں گے ۔
باخبر ذرائع اس حوالے سے جن دیگر متحدہ رہنماؤں کا نام لے رہے ہیں ان میں بابر خان غوری ،حیدر عباس رضوی، لندن سے سفیان یوسف، کراچی سے ڈاکٹر صغیر انصاری کے علاوہ بیرون ملک مقیم بعض سرگرم رہنما شامل ہیں جو موقع کے انتظار میں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے سابق وفاقی وزیر اور متحدہ کے اہم رہنما بابر خان غوری کی وطن واپسی اسی خاموش مفاہمت کے تناظر میں ہوئی تھی۔ بابر غوری گرفتاری اور ضمانت کے بعد عدالت سے گلوخلاصی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دیگر رہنماؤں کو بھی اگر کوئی قانونی مشکل پیش آئے گی تو اس کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے ۔