نواز طاہر:
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور سے تائید و حمایت ملنے پر احتجاج کی کال دی ہے۔ عمران خان نے ملک گیر احتجاج اور اسلام آباد میں دھرنے کیلئے لاہور سے بھی ساتھیوں کے مکمل تعاون کی کلین چِٹ حاصل کرلی ہے اور ابتدائی طور پر وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہے ہیں۔ تاہم ان کے دورہ لاہور سے ان کے کچھ ساتھی ناراض بھی ہیں اور اسی ناراضگی کی وجہ سے انہوں نے عمران خان کی تقریر کا بھی بائیکاٹ کیا ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان احتجاجی تحریک کے سلسلے میں پنجاب کے اراکین اسمبلی اور لاہور کے رہنماؤں کو اگلی حکمتِ عملی کیلیے تیار رہنے کی تلقین کرنے کیلیے لاہور پہنچے تھے، جہاں انہوں نے پارلیمانی رہنماؤں اور پارٹی عہدیداروں سے ایوانِ وزیراعلیٰ میں ملاقات کی اور اس کے بعد وکلا کے کنونشن سے بھی خطاب کیا۔
ذرائع کے مطابق عمران خان جب ایوان وزیراعلیٰ پہنچے تو پنجاب کے سینئر وزیر وزیر میاں اسلم اقبال، صوبائی صدر و وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد عمران خان نے پارٹی عہدیداروں اور اراکین اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس کے دوران میاں اسلم اقبال نے پارٹی چیئرمین کو صوبائی حکومت کے امور، پنجاب کی سیاسی و انتظامی صورتحال پر آگاہ کیا۔ اجلاس میں صوبے میں پارٹی کی فعالیت اور اسے درپیش چیلنجز پر غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں اگرچہ مختلف اضلاع کے عہدیداروں نے شرکت کی لیکن کچھ ایسے رہنماؤں نے اس میں شرکت نہیں کی جو سیلاب متاثرین کی امداد و بحالی کے صوبائی حکومت کے اقدامات اور بعض حکومتی امور پر اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے اجلاس میں واضح کیا کہ سیاسی اور اتحادی امور خوش اسلوبی سے چلانے کی کوشش جاری رہے گی۔ تاہم سیاسی چیلنج کیلیے تیار رہنا ہے جس کیلیے اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدیدار اپنی تیاری بھی مکمل رکھیں اور بھر پور احتجاج کریں تاکہ عوام کو اتحادی حکومت سے نجات دلائی جاسکے اور پی ٹی آئی دوبارہ حکومت میں آکر قومی ایجنڈا پورا کرسکے۔
ذرائع کے مطابق یہ اجلاس بھی اسلام آباد اجلاس کا فالو اپ تھا، جس میں اراکین کو اعتماد میں لیا گیا۔ تاہم اتحادی جماعت کے حوالے سے بات کرنے سے گریز کیا گیا۔ ان ذرائع کے مطابق پارٹی چیئرمین کو اس امر کا پورا احساس ہے کہ پنجاب میں واضح اکثریت کے باوجود ان کی پارٹی آگے نہیں بڑھ رہی اور اس کے مقابلے میں اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کا ایجنڈا آگے بڑھ رہا ہے اور پنجاب میں تبدیلی خارج از امکان نہیں ہے۔ اسلام آباد میں وہ اشارہ بھی دے چکے ہیں کہ آگے بڑھنے کیلئے موجودہ حکومتی سیٹ اپ بدلنا پڑے گا، لیکن فی الوقت ایسا کرنے کیلئے حالات ساز گار نہیں ہیں۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق عمران خان نے اپنے کھلاڑیوں سے کہا کہ وہ ڈٹے رہیں اور گھبرائیں نہیں، اسلام آباد ہمارا فائنل راؤنڈ ہوسکتا ہے۔ اس میں ہمیں ممکنہ طور پر مشکلات بھی پیش آسکتی ہیں، جن کا مقابلہ عوامی طاقت سے کیا جاسکتا ہے۔ بعد ازاں وکلا کنونشن سے خطاب میں بھی عمران خان نے وکلا پر زور دیا کہ وہ بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی کے ساتھ اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ وکلا کنونشن میں بھی پی ٹی آئی کے کئی دیرینہ اور سرگرم وکلا نے اختلاف رائے کی وجہ سے شرکت نہیں کی۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان صرف اپنے بھانجے کو خوش کرنے کیلیے اس کنونشن میں آئے ہیں اور صرف ان لوگوں کو فوقیت دی جارہی ہے جو پارٹی میں چاپلوسی کرتے ہیں، وہ کبھی مسلم لیگ (ق) میں جاتے ہیں اور کبھی انصاف لائرز کو چھوڑ جاتے ہیں اور پھر اس میں گھنس آتے ہیں۔ اگر انہی لوگوں کو فوقیت دینا ہے تو ہم ایسے کنونشن میں شرکت کیوں کریں۔ اگر چیئرمین پوچھیں گے تو وضاحت کردیں گے، ہم میانوالی میں ہوں یا لاہور میں، ہم نے ہمیشہ انصاف لائرز فورم کو مضبوط کیا ہے اور چیئرمین کے ساتھ کھڑے رہے، اب بھی کھڑے ہیں۔ لیکن چیئرمین کے گرد مخصوص عناصر کا گھیرا ہے، جو پیرا سائٹ ہیں۔ جبکہ یہ حالات ہم لانگ مارچ میں دیکھ بھی چکے ہیں۔ جیسے ہی کال آئے گی اس پر لبیک کہیں گے۔
ادھر تحریکِ انصاف کی احتجاجی حکمتِ عملی اور اسلام آباد میں کسی بھی وقت لانگ مارچ کے حوالے سے اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اتحادی جماعت ہے، اسے تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ق) کی رکن پنجاب اسمبلی خدیجہ عمرکے مطابق اسلام آباد مارچ یا دھرنا پی ٹی آئی کا بحییثت جماعت فیصلہ ہے، اگر مسلم لیگ (ق) کی قیادت پی ٹی آئی کے ساتھ مارچ یا دھرنے میں شرکت کا فیصلہ کرے گی تو ہم سبھی اس کا حصہ ہوں گے۔