رواں ماہ کی 8 تاریخ کو برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کا انتقال ہوا۔ 2 ہفتے تک عالمی میڈیا میں ملکہ کی وفات ہی خبروں کا محور رہی۔ 11 دن تک آخری مراسم جاری رہے اور 19 تاریخ کو تابوت قبر میں اتارا گیا۔ موت سے تدفین تک عجیب و غریب رسوم و رواج دیکھنے کو ملے۔ میت ویسٹ منسٹر ہال میں 4 روز تک دیدار عام کے لیے رکھی گئی، وہاں سے بکنگھم پیلس روانگی ہوئی، وہاں سے ویلنگٹن آرچ آمد، پھر سینٹ جارج چیپل تک سفر، وہاں دعائیہ تقریب، پھر شاہی والٹ میں اتارنے کے بعد تدفین ہوئی۔ میت کے لیے مخصوص تابوت جس کا انتخاب ملکہ نے خود ہی کیا تھا، اس پر سنہری چھڑی، گلوب پر نصب صلیب۔ جنازے کے لیے ہر قدم عجیب شاہی پروٹوکول، چاق و چوبند دستہ ہمراہ، چیونٹی کی رفتار سے چلتی مخصوص گاڑیاں، دنیا بھر کے 500 حکومتی زعماء و سربراہان مملکت کی شرکت، جنہیں باقاعدہ دعوت نامے بھیج کر بلایا گیا۔ سوائے چند ایک کے باقی تمام ممالک کے حکمراں آخری رسومات میں شریک تھے۔ اس دوران نئے بادشاہ کی تاج پوشی کی تقریب بھی ہوئی۔ ملکہ کی آخری رسومات کے دوران تقریباً پورا لندن شہر بند تھا۔ 36 کلومیٹر تک کے فاصلے پر رکاوٹیں اور بیریئرز لگائے گئے۔ دنیا کی 311 انٹیلی جنس ایجنسیوں کی خدمات لی گئیں۔ 2 ہزار کمانڈوز کی لندن میں ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ اس سب پر کتنا خرچہ آیا ہوگا؟ امریکی چینل اسکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق 6 ارب ڈالرز۔ یعنی پاکستانی کرنسی میں ایک ہزار 331 ارب روپے۔ دنیا بھر سے جو لوگ جنازے میں شرکت کے لیے آئے، ان کے اخراجات اپنی جگہ۔ یہ معاملہ تدفین کے بعد بھی جلد ختم نہیں ہوگا۔ رسوم کی بجا آوری کا سلسلہ مزید چلتا رہے گا۔ جس پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہوں گے۔ اسکائی نیوز کے مطابق اس پر بھی کوئی معمولی رقم خرچ نہیں ہوگی۔ لیکن اس سب کا آنجہانی ملکہ کو کوئی فائدہ؟ کچھ بھی نہیں، بلکہ کسی بھی انسان کو تو کیا، کسی ذی روح کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ الٹا نقصان ضرور ہے۔ سراسر عقل کے خلاف فضولیات، بے جا اسراف، سرمائے کا ضیاع۔ وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب برطانوی معیشت سخت مشکلات کا شکار ہے۔ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ کہ شاہی خاندان حکومت کو ایک پائی ٹیکس بھی نہیں دیتا۔ اس کے لیے قوانین ہی الگ ہیں۔ مگر یہ اخراجات سب عوامی ٹیکس سے۔ اس کے باوجود مجال ہے کسی لبرل، سیکولر یا ملحد یا دجالی میڈیا نے ان فضولیات پر ایک حرف بھی زبان پر لایا ہو کہ بڑا پیسہ ضائع کر دیا۔ اتنے بڑے سرمائے سے فلاں فلاں مثبت کام ہو سکتے تھے۔ لاکھوں غریبوں کی مدد کی جا سکتی تھی۔ مگر ان عناصر کی تان توٹتی ہے تو اسلامی احکام پر۔ قربانی کے چند ہزار روپے مسلمان اپنی مرضی سے خرچ کریں تو انہیں آگ لگ جاتی ہے۔ زکوٰۃ و فطرہ انہیں اسراف معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی حج یا عمرے پر جائے تو اس پر یہ عناصر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ یہ رقم فقراء و مساکین پر کیوں خرچ نہیں کی گئی۔ پھر مغرب کی مثال دیتے نہیں تھکتے کہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ وہ بے مقصد کاموں پر سرمایہ صرف نہیں کرتے۔ ان کا ہر کام انسانی فلاح کا حامل ہوتا ہے۔ مگر یہ سب خلاف حقیقت ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا راز ہی یہ ہے کہ انہوں نے مذہب کو سیاست سے جدا کر دیا ہے۔ ملکہ کے جنازے اور برطانیہ کے نئے بادشاہ چارلس کی تقریب حلف برداری نے اس دعوے کو بھی باطل کر دیا۔ شاہ نے انجیل مقدس کا نسخہ ہاتھ میں لے کر حلف اٹھایا اور مذہبی عقائد کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سیکولر ملک کہلانے والے جدید برطانیہ کا نہیں، بلکہ قرون وسطیٰ کی کسی مسیحی و صلیبی ریاست کے فرمانروا ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے انتقال کے بعد بہت سے راز عیاں ہوگئے۔ عجیب بات یہ کہ ایک خاص مشن کے تحت ہم مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہ بات بٹھائی جا چکی ہے کہ عیاش صرف مسلم بادشاہ ہیں۔ مغربی حکمرانوں کی سانس بھی انسانی فائدے سے خالی نہیں ہوتی۔ وہ سائیکل پر سواری کرتے ہیں۔ انگریز عیار نے ایک خاص مقصد کے تحت تاریخ کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ مغل بادشاہوں کی جعلی داستانیں پھیلائی گئیں اور اب موجودہ عربوں کی عیاشی کے سچے جھوٹے قصے اتنے عام کر دیئے گئے ہیں کہ زبان زد عام و خاص ہوگئے۔ یہاں تک کہ جب بھی عیاشی کی بات ہو تو سب کے اذہان انہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مگر یورپی بادشاہوں کی خرمستیوں کو پردئہ اخفاء میں رکھا گیا ہے۔ بلکہ ان میں سے بیشتر کے رازوں تک نام نہاد آزاد میڈیا کو رسائی بھی نہیں ہے۔ یہ بالکل سربستہ راز ہیں۔ اندازہ لگایئے کہ ملکہ برطانیہ جو تاج پہنتی تھیں، اس کی قیمت کا تخمینہ 28 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ کیا اس کا کہیں دوسرے ملک میں تصور بھی ہو سکتا ہے؟ آنجہانی ملکہ یورپ میں سب سے مہنگے گھوڑوں اور قیمتی کتوں کی مالک تھیں اور صرف یہ نہیں، بلکہ یہ دولت اور تاج کے ہیرے سب کچھ اسلامی ممالک سے ہی چرا کر لے جائے گئے ہیں۔ انگریزوں نے صرف ہندوستان کو کتنا لوٹا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ فی الوقت دنیا کی کل جی ڈی پی 80 کھرب 900 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ جب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو دنیا کی کل جی ڈی پی کا 25 فیصد حصہ صرف ہندوستان کے پاس تھا۔ یعنی موجودہ دور کے حساب سے 20 کھرب 225 ارب ڈالر۔ درآمدات نہ ہونے کے برابر اور برآمدات کی بہتات تھی۔ واضح رہے کہ ایک کھرب میں ہزار ارب ڈالر ہوتے ہیں۔ سترہویں صدی میں فرانسیسی سیاح فرانکیوس برنیئر ہندوستان آیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے میں سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں، اسی لئے سلطنت مغلیہ ہند کو سونے کی چڑیا کہتے تھے۔ خود برطانوی میڈیا بی بی سی نے اس لوٹ مار پر ایک رپورٹ نشر کی۔ جس کے مطابق انگریز 1857ء سے 1947ء تک ہندوستان سے 30 کھرب ڈالر لوٹ کر لے گئے۔ جبکہ برطانوی جریدے انڈیپنڈنٹ کے مطابق 45 کھرب ڈالر۔ اسی لئے تو مغرب خوشحال اور ہم کنگال ہیں۔ ورنہ وہاں پیسے اور سونے کی بارش تو نہیں ہوتی۔ یہی لوٹ کی دولت ہے۔ پھر بھی وہ مہذب اور ہم اجڈ۔ ملکہ الزبتھ 19 برس کی عمر میں حکمراں بنیں اور 70 سال تک وہ حکومت کرتی رہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ جن سربراہان مملکت سے متاثر ہوئیں، ان میں سعودی عرب کے سابق فرماں روا شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کا نام سرفہرست تھا۔ شاہ عبد اللہ ملکہ سے عمر میں 2 سال بڑے تھے۔ وہ اپنی وفات تک دنیا کے سب سے معمر بادشاہ تھے۔ جنوری 2015ء میں ان کے انتقال کے بعد ملکہ الزبتھ کو سب سے معمر ملکہ کا اعزاز مل گیا۔ شاہ عبداللہ اور ملکہ کا موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ جو چیز متاثر کن لگ رہی ہے، وہ دونوں کی آخری رسومات ہیں۔ شاہ عبد اللہ کی میت کو ایک خاکی جبے میں لپیٹ کر دو لکڑیوں پر جنازہ گاہ لایا گیا۔ جنازے کو کندھا بوڑھے بھائی شاہ سلمان اور بیٹوں نے دیا۔ سعودی مفتی اعظم نے عام آدمی کی طرح جنازہ پڑھا دیا۔ جوان بیٹوں اور بوڑھے بھائیوں نے بادشاہ کو قبر میں اتار کر مٹی کی مٹھیاں بھر بھر کر ان پر ڈالی اور چلتے بنے۔ ملکہ الزبتھ کے جنازے کا ایک اور عرب بادشاہ سے موازنہ کر کے دیکھ لیں تو بھی حقیقت عیاں ہو جائے گی۔ ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ مسلم حکمرانوں کو دودھ کا دھلا ہوا ثابت کیا جائے۔ ان کی وکالت بالکل مقصود نہیں ہے۔ مدعا صرف یہ ہے کہ انسانیت کا دم بھرنے والے مغرب کا اصل چہرہ عیاں ہو۔ ایک مسلم بادشاہ کا بھی حال ہی میں (13 مئی) انتقال ہوا۔ وہ تھے امارات کے حکمران شیخ خلیفہ بن زید النہیان۔ لیکن اسلامی تعلیمات کی برکت کہ جنازہ سادگی کا نمونہ تھا۔ صبح انتقال ہوا اور مغرب کے بعد تدفین۔ نہ دیدار عام کے لیے چار دن انتظار، نہ ہی لمبا چوڑا شاہی پروٹوکول۔ چند افراد نے عام سے تختے پر میت اٹھائی اور ایمبولینس میں رکھ کر مسجد پہنچا دی۔ جہاں نماز جنازہ ہوا۔ وہاں سے جنازہ قبرستان پہنچا دیا گیا۔ میت بھی عام سے کفن میں لپٹی ہوئی، جس پر نہ سونے سے مرصع چادر اور نہ ہی طلائی تابوت، بس صرف اماراتی پرچم۔ قبر بھی سادہ سی۔ مٹی کا ایک کوہان نما ڈھیر۔ مقبرۃ البطین میں عام قبروں کے مابین۔ کسی شاہی عمارت میں نہیں۔ اس کے باوجود مغربی پروپیگنڈے کی قوت دیکھئے کہ دنیا بھر میں بدنام مسلمان ہیں اور جنازے پر 6 ارب ڈالرز پھونکنے کے باوجود اہل مغرب کی طرف کوئی انگلی بھی نہیں اٹھاتا۔ بلکہ ان کی اس خامی کو میڈیا میں خوبی بنا کر دکھایا جاتا ہے۔ اسلام کی تعلیم کتنی خوبصورت اور فطرت و عقل کے عین موافق ہے کہ میت کو جلد ازجلد دفنایا جائے تاکہ غم جلد کم ہو۔ پھر اس طرح کے فضول اخراجات کو اسراف کہہ کر حرام قرار دے دیا ہے۔ یہاں تک کہ قبر پر چراغ جلانا بھی ممنوع ہے کہ اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں۔ ہمارے عرب امور کے بقول اسلام کا اصل حسن اس کی سادگی ہے۔ عرب وہ قوم ہیں جو اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود بھی اس سادگی کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ تمام تر دولت، کروفر، جدید ترین گاڑیوں، قیمتی اونٹوں، نایاب نسل کے گھوڑوں اور سر بہ فلک محلات کے باوجود بھی اسلام کی اس سادگی پر عرب عمل پیرا ہیں۔ یہی اسلام کی خوبصورتی اور کشش کی اصل وجہ ہے اور دنیا میں انسانوں کو اسلام کی جانب کھینچ کر لانے والا اصل راز بھی یہی ہے۔ افسوس اس خوبی کو بڑی عیاری سے مغربی میڈیا اس کے برعکس دکھا رہا ہے۔ ہمیں عربوں کی چار چار بیویوں کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں۔ لندن اور پیرس کی سڑکوں پر ان کی دوڑتی ہوئی فیراری کاریں دکھائی جاتی ہیں۔ مگر ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ دنیا میں سب سے بڑا وقف باغ اس زمانے میں بھی عربوں کا کارنامہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں پتا کہ غریب اور مسافر کے لیے دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان عرب ملک میں بچھتا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ڈونر سعودی عرب ہے۔ رمضان میں ایک ارب کھانے خیراتی فراہم کرنے والا کوئی یورپی نہیں بلکہ عرب شیخ ہیں۔ ہمارے سندھ اور پنجاب کے سیلاب زدگان کے لیے ایئر برج قائم کرنے والے ممالک صرف عرب ہیں۔ ہمیں سادگی کا استعارہ، مہمان نوازی اور غریب پروری کی مثال، انسانی حقوق کی پاسداری کے آئیڈیلز اور نجات دہندگی کی مورتیاں صرف یورپ میں نظرآتی ہیں، کیونکہ ہم کم فہم ہیں، کج نظر ہیں، معلومات کے کورے اور دل کے ٹیڑے ہیں۔ شکر کہ ملکہ الزبتھ کی موت نے پھر بھی بہت سوں کی آنکھیں کھول دیں۔