خیراتی رقم کا سب سے بڑا حصہ 16 ہزار کروڑ مندروں کو دیا گیا۔فائل فوٹو
خیراتی رقم کا سب سے بڑا حصہ 16 ہزار کروڑ مندروں کو دیا گیا۔فائل فوٹو

بھارتی بھکاریوں نے گزشتہ برس 13 ہزار کروڑ کمائے

ودیا ساگر کمار:
بھارت کی ’’اشوکا‘‘ یونیورسٹی اور بین الاقوامی فرم ’’کنٹار‘‘ کی مشترکہ تحقیقات پر مبنی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں دیہی اور شہری علاقوں میں خیرات کا رجحان اچانک سے بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ برس خیرات میں 23 ہزار سات سو کروڑ روپے دیے گئے۔ اس خیراتی رقم کا سب سے بڑا حصہ 16 ہزار کروڑ یعنی 64 فیصد مذہبی اداروں یا مندروں کو دیا گیا۔ جبکہ بھکاریوں نے تیرہ ہزار کروڑ روپے کمائے۔

بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ جدید دور میں ’’ای پیمنٹس‘‘ کی مدد سے بھی بھکاریوں کو نوازا جارہا ہے۔ ممبئی، دہلی، کولکتہ، امرتسر، جے پور، لکھنئو سمیت اہم شہروں میں ہزاروں بھکاری موبائل فونز اور الیکٹرونکس ڈیوائسز کی مدد سے بھیک لے رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور اسپتال بھی بھیک طلب کرنے کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ اسپتالوں اور غیر سرکاری انجمنوں کو ایک برس میں گیارہ سو کروڑ روپے ملے۔

دلچسپ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی شہریوں کی نسبت دیہی علاقوں کے افراد اور خاندان زیادہ خیرات دیتے ہیں۔ فرم کنٹار اور اشوکا یونیورسٹی کی یہ مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ بھارت کی اٹھارہ ریاستوں میں 81 ہزار خاندانوں اور ایک لاکھ افراد سے کئے جانے والے سروے نتائج پر مبنی ہے۔ شمالی و مغربی ہندوستان کی نسبت مشرقی اور جنوبی بھارت کے شہری بالخصوص 96 فیصد اور 94 فیصد تعداد کے ساتھ بھیک یا خیرات دینے میں سبقت رکھتے ہیں۔ زیادہ تر خیرات دینے والوں میں کی عمریں چالیس سے ساٹھ برس کے درمیان تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بھیک خواتین کے بجائے مرد حضرات دیتے ہیں اور خاندان کے سربراہ یا بڑے ہی اپنے قریبی رشتے داروں اور احباب دوستوں کو خیرات دینے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ایک دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ مرد حضرات کی نسبت دروازے پر آئے بھکاریوں کی مالی اعانت کرنے میں گھریلو خواتین آگے رہتی ہیں۔ مشترکہ تحقیقی رپورٹ کی تیاری میں یہ نکتہ بھی سامنے آیا کہ مندرو ں کو مالی امداد یا خیرات دینے کا سب سے اہم محرک خاندانی روایات ہیں۔

انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے خصوصی تہواروں یا مقدس گردانے جانے والے مواقع پر مذہبی تنظیموں اور بالخصوص بڑے مندروں یا ٹرسٹ کو نقد خیرات دینا زیادہ پسند کیا۔ فرم کنٹار اور اشوکا یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ڈائریکٹر سواتی سری شاتھ کا استدلال ہے کہ بھارت میں بھیک اور لوگوں کے رجحانات کو سمجھنے کی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔ اس تحقیقی سروے سے بھارتیوں میں خیرات دینے کے رجحان اور وجوہات کو جاننے میں مدد ملے گی۔ نیز بھیک دینے کے عمل کا کووڈ انیس کی وبا یا معاشی ابتری سے جڑا ہوا ہے۔ بھارتی جریدے کول کتہ ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء کی ایک شماریاتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں پانچ لاکھ ستر ہزار سے زیادہ بھکاری پائے جاتے ہیں۔ جبکہ 2011ء میں بھارت میں موجود بھکاریوں کی تعداد چار لاکھ تیرہ ہزار چھ سو ستر تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں بھکاریوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔