ن لیگ کے مزید رہنما فوری وطن واپس نہیں آ رہے

نواز طاہر:
پاکستان مسلم لیگ ن نے حکومتی، تنظیمی اور سیاسی سرگرمیوں میں تیزی لانا شروع کردی ہے۔ جس کے تحت وفاق میں وزیر خزانہ تبدیل کرکے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ قلمدان سونپا جارہا ہے۔ تاہم قانون کو مطلوب اور بیرون ملک مقیم کسی اور لیگی رہنما کو فوری وطن واپس لانے کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں بنایا گیا۔ واضح رہے کہ سابق وزیر و سینیٹر اسحاق ڈار کو عدالت نے سات اکتوبر تک وطن واپسی کی صورت میں خود کو قانون کے حوالے کرنے کیلئے گرفتار نہ کیے جانے کی سہولت دی ہے۔ لیکن ان کی واپسی کی حتمی تاریخ کاکوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ ان کی جماعت کے پنجاب کے صدر و وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے چند روز میں اسحاق ڈار کے پاکستان لینڈ کرجانے کی تصدیق کی ہے۔
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خاندانی ذرائع پہلے ہی تصدیق کرچکے ہیں کہ وطن واپسی پر وہ نیب کی تفتیش میں شامل ہوںگے۔ اور سے پہلے وہ عدالت کے سامنے سرنڈر کریں گے، جہاں سے معلوم آمدنی سے زائد اثاثوں کے ریفرنس میں وہ پانچ سال قبل اشتہاری قرار دیئے گئے تھے۔ عدالت نے ان کی گرفتاری کے لئے دائمی وارنٹ جاری کیے تھے، جو عبوری طور پر معطل کیے گئے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار سینیٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے فوری بعد وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالیں گے اور اقتصادی امور پر نظر ثانی کرکے ممکنہ طور پر اقتصادی سمت میں تبدیلی لائیں گے۔ جس کے نتیجے میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کے اندر ڈالر کی قدرکم ہوکر ایک سو نو ے یا ایک سو پچانوے روپے تک آجائے گی۔ اور روپیہ مستحکم ہوگا۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اسحا ق ڈار واپس آکر میاں شہباز شریف کی اقتصادی ٹیم کا حصہ بنیں گے اور اقتصادی امور میں بہتری لائیں گے۔

یہاں یہ امرقابل ِذکر ہے کہ موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اگلے ماہ کی اٹھارہ تاریخ کے بعد خزانے کے وزیر کی حیثیت سے آئینی طور پر فرائض کی انجام دہی جاری نہیں رکھتے سکتے۔ کیونکہ وہ سینٹ یا قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں۔ تاہم وہ خزانے کے مشیر کی حیثیت سے فرائض جاری رکھ سکتے ہیں۔ مگر وہ سی ای سی کے اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتے اور نہ ہی انتہائی اہمیت کے حامل اقتصادی معاملات انجام دے سکتے ہیں۔ جس کے پیشِ نظر اسحاق ڈار کو وطن واپس لایا جارہا ہے۔ ذرائع کے مطابق کچھ عرصے سے اسحاق ڈار کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ لیکن کچھ ’’تکنیکی‘‘ مجبوریوں کو وجہ سے مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ سونپی گئی تھی، مگر وہ اس میں کامیاب ہیں ہوسکے۔ جبکہ درپیش معاشی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تمام اتحادیوں اور اہم لیگی رہنمائوں کی مشاورت سے وزیر خزانہ تبدیل کرنے اور اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار کے بعد مسلم لیگ ن کی قانون کو مطلوب اور بیرون ملک مقیم اہم شخصیات کی وطن واپسی کے بارے میں نواز لیگی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف بھی جلد واپس آنا چاہتے ہیں۔ لیکن کچھ حالات سازگارہو نے کے منتظر ہیں۔ جیسے ہی حالات سازگار ہوں گے۔ وہ اپنے معالج کے مشورے سے پاکستان پہنچ جائیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی صحت بہتر ہے۔ تاہم وہ ادویات کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ان ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف ملک میں جماعت کی سیاسی سرگرمیاں تیز کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ جس کے تحت پنجاب میں تنظیم سازی اور تنظیمی عہدیداروں سے مشاورت کا عمل شروع کیا جارہا ہے۔ اگلے مرحلے میں باقاعدہ عوامی رابطہ مہم شروع کیے جانے کا امکان ہے۔ اسی عوامی رابطہ مہم کے دوران ہی وہ وطن واپس آسکتے ہیں۔ جس کے ساتھ ہی اگلے الیکشن کی انتخابی مہم کے پہلے مرحلے کی ابتدا کی جائے گی۔ لیکن اس سے پہلے مریم نواز اور حمزہ شہباز متحرک ہوںگے ۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے ساتھ ہی پارٹی سے الگ تھلگ رہنے والے رہنمائوں، کارکنوں اور کچھ اراکین اسمبلی کی واپسی بھی شروع ہوجائے گی جو اگلا الیکشن ایک بار پھر مسلم لیگ ن ہی کے ٹکٹ پر لڑنا چاہتے ہیں۔

ان ذرائع کے مطابق ضمنی الیکشن میں شکست کھانے والے زیادہ تر اراکین کو آئندہ الیکشن میں ٹکٹ دیئے جانے کا امکان بہت کم ہے۔ بلکہ پارٹی سے تسلسل کے ساتھ وابستگی رکھنے والوں کو خاص اہمیت دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اگلے ہفتے سے حمزہ شہباز بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع اور تیز کردیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق موجودہ صورتحال کے مطابق جماعت کا بیانیہ بھی تیار کیا جارہا ہے۔ جس میں عوام کو یہ بھی باور کرایا جائے گا کہ پنجاب میں مختصر عرصے کے دوران مسلم لیگ ن نے عوامی فلاح کے لئے کیا منصوبے بنائے اور ان پر عملدرآمد کیا گیا۔
ان اطلاعات کی جزوی طور پر تصدیق کرتے ہوئے مسلم لیگ ن پنجاب صدر رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ، اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ انتخابی مہم میاں نوازشریف ہی کی قیادت اور وطن میں موجودگی میں چلائی جائے گی۔ تاہم ان کی فوری واپسی کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔