(ضیاء چترالی)
اردن میں بحیرہ مردار کے قریب واقع تل الحمام کا علاقہ ہمیشہ سے ماہرین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا کہ یہاں پر ماہرین تحقیق کرتے نظر نہ آرہے ہوں۔ کیونکہ یہی وہ علاقہ ہے، جسے سدوم کہا جاتا تھا۔ جہاں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم آباد تھی۔ جس کا ذکر آسمانی کتابوں میں آیا ہے۔ سدوم کے باشندے کیسے تباہ ہوئے، یہ جاننا ماہرین کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ اس وقت بھی یہاں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ریسرچ میں مصروف ہیں۔ تازہ جو انکشافات ہوئے ہیں، وہ اریب قریب انہی حقائق پر مبنی ہیں، جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ اس تازہ تحقیق کے نتائج 20 ستمبر کو "ساینٹفك رپورٹس” (Scientific Reports) میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ تحقیق امریکی یونیورسٹی جامعہ یوسی سانٹا باربرا (UC Santa Barbara) کی جانب سے ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بستی پر فضا سے کوئی نہایت غیر معمولی شہابیہ گرا ہے۔ جس سے یہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ یہ واقعہ آج سے 3600 برس قبل رونما ہوا۔ اس شہابیہ کے گرنے سے جو دھماکہ ہوا، وہ ہیروشیما پر گرنے والے ایٹم بم کے دھماکے سے ایک ہزار گنا زیادہ شدت کا تھا۔ اس تحقیق کے دوران علاقے کی چٹانوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا گیا۔ جن میں ایسے مواد کا پتہ چلا، جو زمین میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق کرہ ارضی سے ہے ہی نہیں۔ یہاں کی ہر چیز اس 2000 ڈگری سینٹی گریڈ ہیٹ سے گزری ہے۔ اتنی حرارت کا اخراج اس دور میں ممکن ہی نہیں تھا۔ علاوہ ازیں یہاں چھوٹے گیند نما ایسے پتھر بھی ملے ہیں، جو لوہے، سلکا اور ایسی دھاتوں سے مرکب ہیں، جن کا ہماری زمین سے کوئی تعلق نہیں۔ (ہو سکتا ہے یہ وہی پتھر ہوں، جو برسائے گئے تھے۔۔۔۔ وامطرنا علیھم حجارۃ) اس علاقے میں ماہرین کو Shocked Quartz بھی ملے ہیں۔ یہ ایسے ریتیلے ٹکڑے ہیں، جو نہایت زوردار دباو کے بغیر وجود میں نہیں آتے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ تل الحمام میں ہونے والا دھماکہ سائبیریا میں 1908 کو ہونے والے دھماکے کی طرح تھا۔ جس کی شدت 12 ميگا ٹن تھی۔ اس وقت 56-60 میٹر قطر کا شہابیہ زمین سے ٹکرایا تھا۔ (واللہ اعلم) خیر ماہرین یہ تو بتاتے ہیں کہ یہ بستی کیسے تباہ ہوئی۔ لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہا کہ ایسا ہوا کیوں؟ حالانکہ زیادہ اہم سوال یہی ہے۔ تاکہ ان اسباب و عوامل سے بچا جاسکے، جو اس بستی کی بربادی کا باعث بنے۔ چونکہ آسمانی کتب کے مطابق اس کا سبب ہم جنس پرستی تھی۔ اس پر تو سب خاموش ہیں۔ کیونکہ عالمی چوہدری اس خباثت کی ترویج میں مصروف ہیں۔