ملاقات ۔ سجاد عباسی
مظہر عباس پاکستانی صحافت کا ایک معتبر حوالہ ہیں ، اپنے مدلل، بے لاگ اور غیر جانبدارانہ تجزیوں کی بنا پر ناظرین اور قارئین کے ایک وسیع حلقے کے پسندیدہ صحافی اور تجزیہ کار ہیں ۔۔نامور صحافتی شخصیات کے انٹرویوز کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم نے ان کے ساتھ بھی ایک طویل نشست رکھی جس میں ہونے والی گفتگو قسط وار پیش کی جارہی ہے ۔
س: آپ نے بتایا کہ آپ کے آٹھ دس عزیز بھارت میں صحافت سے منسلک ہیں اور ان میں سے ایک آپ کی انسپائریشن بنے۔ تو آپ کا تعلیم کے دوران رجحان کس طرف تھا؟
ج: اسکول، کالج کے دور میں ہم حیدرآباد میں تھے۔ جس طرح نوجوانی میں عام طور پر ہوتا ہے۔ کھیلوں کا بہت شوق تھا۔ ہاکی اور کرکٹ دونوں ہی کھیلے کالج لیول پر۔ وہ زمانہ اس لیے بھی یاد رہتا ہے کہ تب ’’محلے داری‘‘ کا کلچر بہت مضبوط تھا۔ آپ کو پتا ہوتا تھا کہ آپ کے اڑوس پڑوس میں، دوسری اور تیسری گلی میں اور پھر محلے میں کون کون لوگ رہتے ہیں۔ آج مجھے اپنے پڑوس کا بھی نہیں پتا کہ یہاں کون رہتا ہے۔ تب ماں باپ کو بچوں کی فکر نہیں ہوتی تھی کہ کہاں گئے ہوں گے۔ اندازہ ہوتا تھا کہ اتنی دیر ہو گئی تو وہاں چلے گئے ہوں گے۔ ہماری بہن اندازے لگا لیتی تھیں کہ اب ہم ڈاکٹر فاروقی کے گھر ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تب ظاہر ہے موبائل فون کی سہولت تو درکنار لینڈ لائن فون بھی خال خال ہی ہوا کرتا تھا۔ تو وہ چیز اب ’’مسنگ‘‘ ہے۔ پہلے ماں باپ کو یہ فکر ہوا کرتی تھی کہ بچہ کھیل کود یا دوستوں کے ساتھ باہر گیا ہے تو واپس کب آئے گا۔ اب یہ عالم ہے کہ والدین فکرمند ہیں کہ بچے کو گھر سے باہر کیسے بھیجا جائے۔ کیونکہ وہ دن بھر موبائل، لیپ ٹاپ یا gadget پر بیٹھا رہتا ہے۔ اس سے مجھے بظاہر یہ لگتا ہے کہ آج کل کے بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہوگئے ہیں۔
س: یعنی ہمارا بچپن آج کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ اچھا گزرا؟
ج: بہت اچھا گزرا۔ اس لیے کہ ہم باہر جاتے تھے۔ گرائونڈز میں کھیل کود کرتے تھے۔ تب سیکورٹی کے مسائل بھی نہیں ہوتے تھے۔ اب عالم یہ ہے کہ بچہ اگر گھر میں موبائل لے کر بیٹھا ہے تو والدین فکرمند ہیں کہ کہیں Misuse نہ کر رہا ہوں۔ باہر جائے تو حالات کی وجہ سے پریشانی رہتی ہے۔ وقت بہت بدل گیا ہے۔ تو وہ جو دور تھا وہ بے فکری کا دور تھا۔ آپ اب ذہنی طور پر بہت زیادہ اسٹریس کا شکار رہتے ہیں، بچے بھی اور بڑے بھی۔
س: آپ کے والد ایک بڑی علمی شخصیت تھے اور خود ٹیچر بھی تھے تو ان کا بچوں کے ساتھ تعلق کیسا تھا۔ کیا گھر میں ڈسپلن نافذ کر رکھا تھا؟ پڑھنے اور کھیل کود کے لیے کوئی وقت مقرر تھا؟
ج: یہ سارے معاملات ہماری والدہ کا سبجیکٹ تھا۔ بچے کو کس اسکول میں داخل کرانا ہے۔ کیا انتظام کرنا ہے۔ گھر میں قاری صاحب بچوں کو قرآن پاک پڑھانے آتے تو وہ باقاعدہ آکر چیک کرتیں کہ بچے کی پروگریس کیا ہے۔ وہ خود سوشل بھی بہت تھیں۔ کبھی گھر میں ون ڈش پارٹی کر لی اور محلے والوں کو بلا لیا۔ تو بچوں کی دیکھ بھال اور تربیت میں والدہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ والد صرف نگرانی (Supervision) کے طور پر دیکھ لیا کرتے تھے کہ بچے کے امتحان میں مارکس کتنے ہیں۔ باہر کے معاملات وہ دیکھتے تھے۔ بڑے بھائی اطہر عباس جو بعد میں پاک فوج میں چلے گئے، ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ان کا بڑا میچ تھا اور مخالف ٹیم جانتی تھی کہ یہ بہت اچھا سینٹر فارورڈ ہے تو انہوں نے ٹارگٹ کر کے اطہر کے سر پر ہاکی مار دی۔ سر پھٹ گیا۔ خون بہنے لگا۔ ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اب گورنمنٹ کالج حیدرآباد بہت مشہور کالج تھا۔ لڑکوں نے اسٹیڈیم کا گیٹ بند کر دیا کہ اس ٹیم کو واپس نہیں جانے دیں گے۔ تو اس وقت ہمارے گھر پر علامہ رشید ترابی آئے ہوئے تھے۔ سابق کمشنر کراچی شفیق پراچہ جن کا تعلق بنیادی طور پر حیدرآباد سے ہے، انہوں نے آرٹس کونسل میں میرے والد کے تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرزا صاحب کا گھر ایک سایہ دار درخت کی مانند تھا۔ جب ہم میں سے کسی کو کوئی مسئلہ یا الجھن درپیش ہوتی تو ہم ان کے پاس چلے جاتے تھے۔
س: حیدرآباد میں اور کن کن معروف شخصیات کا آپ کے گھر پر آنا جانا تھا؟
ج: شروع میں ہم گاڑی کھاتہ میں رہتے تھے، پھر لطیف آباد شفٹ ہو گئے تھے۔ تو ہمارے گھر میں فیض احمد فیض، حمایت علی شاعر، جوش ملیح آبادی، اداکار محمد علی اور کئی دیگر بڑے لوگ نہ صرف آتے تھے بلکہ ان میں سے بعض لوگ قیام بھی کرتے رہے۔ زیڈ اے بخاری (معروف ادیب، شاعر اور پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی) سے محمد علی کا تعارف میرے والد نے ہی کرایا تھا کہ اس لڑکے کی آواز بہت اچھی ہے۔ یہ ڈراموں وغیرہ میں کام کر سکتا ہے۔ حمایت علی شاعر سے تو ہمارا بہت قریبی خاندانی تعلق تھا۔ انہوں نے میری والدہ کو بہن بنایا ہوا تھا۔ وہ اکثر کہتے تھے کہ اگر تمہاری والدہ سختی نہ کرتیں تو میں ماسٹرز کبھی نہ کر پاتا۔ تو اس طرح کے ماحول میں ہم نے اپنا بچپن اور کسی حد تک جوانی بھی گزاری ہے۔ پھر ہماری والدہ کا ایک کار حادثے میں بہت جلدی انتقال ہو گیا۔ ہم عصر خواتین ان پر رشک کرتی تھیں کہ وہ سماجی طور پر اس قدر متحرک تھیں۔ ہر ایک سے رابطہ کرنا۔ سب کے کام آنا اور گھر کو بھی پوری خوبی کے ساتھ چلانا۔ تو ان کے انتقال نے ہمارے والد کو ایک طرح سے توڑ کر رکھ دیا۔ بلکہ پورے خاندان کا یہی حال تھا۔ اس لیے کہ خاندان میں اس طرح کا یہ پہلا بڑا حادثہ تھا۔ کراچی سے حیدرآباد جاتے ہوئے نیشنل ہائی وے پر حادثہ پیش آیا۔ میں تو ساتھ نہیں تھا مگر دوسرے بھائی اور والد تھے۔ کسی اور کو کوئی خاص چوٹ نہیں آئی۔ گاڑی سلپ ہوئی اور صرف والدہ کی سائیڈ کا دروازہ کھل گیا اور ان کا سر پتھر سے جا لگا۔ یہ بات ہے 1969ء کی۔ ہم سب اس وقت چھوٹے تھے۔ ہماری زندگیوں پر اس واقعے کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ میں شاید تب ساتویں جماعت میں تھا۔ تو پھر ہم سب کو ہمارے والد نے اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود سنبھالا اور پالا۔ ماں کا پیار دینے کی بھی کوشش کی۔ بس وہ یہی کہتے تھے کہ میرا بنیادی ہدف ہے کہ تم لوگوں کو اچھی اور مناسب تعلیم دلوا سکوں۔ باقی کام آپ لوگوں کا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر آپ کسی بچے کو میٹرک تک اچھی تعلیم دلا دیں تو اس کا کیریئر بن جاتا ہے۔ کیونکہ آپ کی ساری ذہن سازی اسی عرصے میں ہوتی ہے۔
س: والد نے کیریئر کے انتخاب میں بھی کوئی رہنمائی کی کہ آپ کو کس فیلڈ میں جانا چاہیے؟
ج: انہوں نے کبھی اس حوالے سے کوئی زور نہیں دیا کہ آپ کو کس طرف جانا چاہیے۔ اچھا یہ بھی بڑے مزے کا واقعہ ہے کہ ہمارے ایک بھائی اطہر نے فوج کیسے جوائن کی۔
س: یہی سوال ہمارے ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ تین بھائی صحافت کے اسٹار بن گئے تو چوتھے نے تین اسٹار اپنے کندھے پر کیسے لگا لیے؟
ج: اچھا۔ اطہر ہمارے ایک کزن سے بہت انسپائرڈ تھے جو پاک فوج میں تھے اور جنرل امجد وغیرہ کے بیچ میں شامل تھے۔ ویسے تو ظفر نے بھی پاکستان ایئرفورس کے لیے اپلائی کیا تھا۔ اطہر نے آرمی میں اپلائی کیا۔ ہمارے گھر میں شام کو والد کے دوست وغیرہ آکر بیٹھتے تھے۔ تو ایک دن سٹی کالج کے پروفیسر سمیع صدیقی جو والد کے دوست اور بہت اچھے انسان تھے انہوں نے ظفر اور اطہر دونوں کو بلایا اور کہنے لگے کہ اطہر کی تو مجھے سمجھ آتی ہے کہ یہ فوج میں جاکر ترقی کرتے کرتے ایک دن ملک کا صدر بن جائے گا، مگر تم نے کیا سوچ کر ایئرفورس میں اپلائی کیا ہے۔ تمہارا کیا بنے گا (زوردار قہقہہ)۔ ظفر کا صحافت کی طرف آنے کا رجحان نہیں تھا۔ اس نے فزکس پڑھ رکھی تھی مگر اس زمانے میں جو ملازمتوں کے مسائل تھے، اس نے اپنی تعلیم این ای ڈی سے مکمل کی تھی مگر وہ پھر جرنلزم میں آیا اور بڑا نام پیدا کیا۔ البتہ میرا مزاج شروع سے اس قسم کا تھا۔ اخبار پڑھنے کا بچپن سے شوق تھا۔ حالات حاضرہ پر نظر رکھتا تھا۔ سیاست میں بھی دلچسپی تھی۔ تو خبریں پڑھتے پڑھتے یہ سوچ بھی develop ہوتی کہ یہ خبریں ہم خود کیوں نہیں بنا سکتے۔ تو جب ہم کالج میں آئے تو گورنمنٹ کالج لطیف آباد سے میں نے انٹر کیا۔ پھر بی اے نیشنل کالج کراچی سے کیا۔ میرے کلاس فیلوز میں معروف اداکار بہروز سبزواری بھی شامل تھے بلکہ ہم ساتھ ہی بیٹھتے تھے۔ اس زمانے میں مارشل لاء نہیں لگا تھا اور طلبہ تنظیمیں موجود تھیں۔ یہ وہی دور ہے جب حسین حقانی بھی نیشنل کالج میں ہوتے تھے۔ مگر تب تک میرا رجحان سیاست کی طرف کوئی خاص نہیں تھا۔ اسپورٹس سرگرمیوں میں زیادہ حصہ لیتا تھا۔ پھر جب ہم کراچی یونیورسٹی گئے اور اس دوران مارشل لاء بھی لگ گیا تو ہم نے طلبہ سیاست میں سرگرم کردار ادا کرنا شروع کیا۔