’’کراچی میں جیب تراشی عروج پر پہنچ گئی‘‘

اقبال اعوان:
کراچی میں جیب تراشوں کی وارداتیں بھی عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ مقامی اورغیر مقامی گروپوں کے کارندے شہریوں کو موبائل فون، رقم اور قیمتی اشیا سے محروم کرنے لگے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں مرد جیب تراشوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی وارداتیں کرنے لگیں۔ شہر میں یومیہ وارداتوں کی تعداد ذرائع کے بقول سیکڑوں میں ہے۔ تاہم بیشتر متاثرین تھانوں میں شکایات درج نہیں کراتے۔ قائدآباد سے کینٹ اسٹیشن تک کے روٹ پر زیادہ جیب تراش وارداتیں کرتے ہیں۔ شہر کی 15 شاہراہیں بھی زیادہ حساس ہیں۔ شہر میں لگ بھگ 7 بڑے جیب تراش گروپس زیادہ سرگرم ہیں۔ پولیس جرائم پر کنٹرول کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ کیوں کہ تھانوں میں جیب تراشی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ شہریوں کی اکثریت رپورٹ کرانے کے بجائے گھروں کا رخ کرتی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ پریشان ہیں۔ معاشی حالات نے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ وہیں بڑھتے اسٹریٹ کرائمز اور مزاحمت پر ملزمان کی جانب گولی مارنے پر شہری خوف زدہ ہیں۔ دوسری جانب شہر میں سال بھر ہونے والا جیب تراشی کا دھندا ایک بار پھر بڑھنے لگا۔ پہلے ماہ رمضان میں دوسرے شہروں سے جہاں گداگر آتے تھے، وہیں جیب تراش بھی آتے تھے اور یہ جرم اس دوران بڑھتا تھا۔ اب کراچی میں دوسرے شہروں سے سیلاب متاثرین کی آڑ میں جرائم پیشہ لوگ بھی آ رہے ہیں۔

کراچی میں جیب تراشوں کی وارداتیں عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ صبح کے اوقات اور شام کے وقت جب لوگ دفاتر، فیکٹری اور دیگر جگہوں پر جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں، اس دوران پبلک ٹرانسپورٹ میں زیادہ رش ہوتا ہے۔ زیادہ تر وارداتیں اسی دوران ہوتی ہیں۔ شہر کی تمام شاہراہوں پر وارداتیں ہورہی ہیں۔ تاہم شاہراہ فیصل اور اس سے پہلے نیشنل ہائی وے پر جہاں گلشن حدید موڑ سے ملیر سٹی اور پھر شاہراہ فیصل پر ریجنٹ پلازہ اور کینٹ اسٹیشن تک زیادہ وارداتیں ہو رہی ہیں۔

شاہ لطیف ٹائون کے اسٹاپ سے چڑھنے والا سات یا آٹھ رکنی گروپ سندھی، بلوچی، سرائیکی بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہ گروپ امتیاز سولنگی کا گروہ کہلاتا ہے۔ یہ لوگ کوچوں، ویگنوں، بسوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔ صبح سے رات تک اس روٹ پر وارداتیں کرتے ہیں اور درجنوں لوگوں کو موبائل فون، نقد رقم، دیگر اشیا سے محروم کر دیتے ہیں۔ ان کا ہدف مسلم کوچ، مزدا 16 نمبر، D-11، مروت کوچ ہوتی ہیں۔ جبکہ اب اس روٹ پر دو مزید غیر مقامی گروپ آچکے ہیں جن میں شہداد کوٹ کا ہاشو گروپ زیادہ سرگرم ہے۔ دو روز قبل شاہراہ فیصل پر کوچ میں اس گروپ نے جیبیں کاٹیں اور لوگوں نے ایک کارندے کو پکڑ لیا۔

تب دو سادہ کپڑے پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ پولیس اہلکار ہیں اور ان جیب کتروں کا پیچھا کررہے تھے اور ملزم کو ساتھ لے کر چلے گئے۔ جب ایئرپورٹ تھانے پر معلوم کیا گیا تو پتا چلا کہ کوئی ملزم نہیں لے کر آئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ آج کل پکڑے جانے والوں کے ساتھی خود کو پولیس اہلکار بتا کر چھڑاتے ہیں اور لوگوں کو ہراساں کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ چلو۔ تھانے میں رپورٹ کرائو۔ تاہم لوگ گھبرا کر منع کر دیتے ہیں۔ ان سات آٹھ رکنی گروپ کو دیکھ کر شہری ڈرتے ہیں کہ ان کے پاس پستول، چاقو، چھری ہو سکتی ہے۔ جبکہ دور دور تک پولیس یا کسی سیکیورٹی ادارے کی موبائل نظر نہیں آتی ہے کہ ان سے مدد حاصل کر سکیں۔

ماڑی پور روڈ پر آئی سی آئی پل سے گلبائی تک کالو بنگالی اور شیرو کے علاوہ کئی گروپس سرگرم ہیں جو کوچوں، مزدا کے اندر، چھت پر رش کے دوران شہریوں کی جیبوں کا صفایا کرتے ہیں۔ ان کے کارندوں کے پاس چاقو ہوتے ہیں جو لوگوں کو پکڑنے کی صورت میں وار کر کے نکل جاتے ہیں۔ یہاں پر سفید کپڑوں میں ملبوس سفید ٹوپیاں لگائے مخصوص گروپ سرگرم ہیں، جن کا حلیہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شک نہیں کرتا ہے۔

عام طور پر کورنگی صنعتی ایریا میں جام صادق پل سے فیوچر موڑ تک کوچوں، بسوں، مزدا میں اس طرح کا ایک اور گروپ سرگرم ہے۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر صبح کے اوقات میں جب سبزی فروش ویگنوں، بسوں میں نیو سبزی منڈی کے لیے جاتے ہیں یا راشد منہاس روڈ پر نیپا چورنگی سے سہراب گوٹھ، الآصف اسکوائر سے جاتے ہیں تو رش میں زیادہ جیبیں کاٹی جاتی ہیں۔ سائٹ، کورنگی، لانڈھی، صنعتی ایریاز، ابراہیم حیدری، فیڈرل بی ایریا، نیوکراچی، نوری آباد صنعتی ایریا میں پبلک ٹرانسپورٹ سے جانے والوں کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں۔ جیب تراش پبلک ٹرانسپورٹ میں دروازوں پر اس طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ آنے اور اترنے والوں کو پھنس پھنس کر گزرنا ہوتا ہے۔ اس دوران جیب سے موبائل فون، رقم نکال لی جاتی ہے اور نکالنے والا ایک دوسرے کے ذریعے مسروقہ موبائل فون، بٹوہ، یا رقم دوسرے ساتھ کو دیتا ہے۔ خطرے کے پیش نظر مسروقہ اشیا لینے والا موقع دیکھ کراتر جاتا ہے۔ آج کل موبائل فون زیادہ ہدف ہوتے ہیں کہ ٹچ موبائل فون کم از کم 10 ہزار سے زائد رقم کا ہوتا ہے۔

یونیورسٹی روڈ، ایم اے جناح روڈ، راشد منہاس روڈ، کورنگی روڈ، پنجاب کالونی روڈ، مائی کلاچی رود، آئی آئی چندریگر روڈ، منگھو پیر روڈ، سائٹ کے روڈ، شاہراہ پاکستان کورنگی کراسنگ سے دائود چورنگی کے روڈ، شیریں جناح کالونی روڈ اور دیگر جگہوں پر وارداتیں بڑھ چکی ہیں۔ تھانوں میں اکا دکا کوئی متاثرہ شہری چلا جاتا ہے کہ جیب کٹ گئی ہے تو کہا جاتا ہے کہ رپورٹ کرا دو کہ کارڈ گر گئے ہیں یا کاغذات گر گئے ہیں۔ جیب تراشی کے حوالے سے روزنامچہ نہیں کیا جاتا ہے۔ جبکہ زیادہ تر شہری وارداتوں کے بعد گھروں کو چلے جاتے ہیں کہ رپورٹ کرا کے مزید پریشانی ہوگی۔