علامہ یوسف القرضاویؒ کی نماز جنازہ آج بروز منگل دوحہ کی جامع الامام محمدبن عبدالوہاب میں بعد نماز ظہر ادا کی گئی۔ چوٹی کے علماء کی موجودگی میں موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے جلیل القدر عالم دین اور متبحر فقیہ علامہ محمد حسن ولد الدود الشنقیطی کو امامت کیلئے آگے کردیا گیا۔ جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ شرکاءمیں قطر میں تعینات اسلامی ممالک کے سفراءسمیت عالم اسلام کے بڑے بڑے علماءبھی شامل تھے۔ اس موقع پر اتحاد العالمی لعلماءالمسلمین کے سربراہ ڈاکٹر علی محی الدین القرة داغی نے اس موقع پر مختصر اور پراثر تقریر کی اور شیخ کی خدمات جلیلہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ بعدازاں دوحہ کے نواحی علاقے میں واقع ”ابوہامور“ نامی قبرستان میں ان کے جسد خاکی کو سپرد خاک کیا گیا۔ اسلامی ممالک اور شخصیات کی جانب سے شیخ کے خاندان سے تعزیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ شیخ قرضاوی کی ساری زندگی اسلام کی خدمت اور نشر واشاعت سے عبارت تھی۔ دینی علوم کی خدمت پر آپ کو درجنوں اعلیٰ ترین ایوارڈز سے نوازا گیا۔ جن میں سعودی عرب کا شاہ فیصل عالمی ایوارڈ، دبئی انٹرنیشنل ہولی قرآن ایوارڈ، سلطان حسن البلقیہ ایوارڈ سرفہرست ہیں۔ ایک طویل عرصے تک آپ سعودی حکمرانوں کے یہاں بہت اہمیت کے حامل تھے۔ ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں سابق سعودی فرماں روا شاہ عبد اللہ مرحوم انتہائی عقیدت کے ساتھ علامہ یوسف القرضاوی سے ملاقات کر رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی حکومت نے علامہ یوسف القرضاوی کو کئی اہم عہدوں کی پیشکش بھی کی تھی، لیکن انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ شیخ کی خدمات کا اندازہ ان کی کتب سے لگایا جاسکتا ہے۔ جن کی تعداد 170 سے زائد ہے۔ عقائد و ایمانیات اور مختلف مذاہب وفرق کے متعلق انہوں نے 15 کتابیں لکھیں، باقی کتب کی تفصیل کچھ اس طرح ہے: فقہ العبادات میں 10، خاندان اور معاشرے کے بارے میں 5، مالیاتی لین دین اور اسلامی معاشیات کے بارے میں 8، فوجداری معاملات میں3، سیاست کے حوالے سے 16، عمومی فقہ میں5، اصول الفقہ میں 8، فتاویٰ کی 6 جلدیں، اخلاقیات میں 9 کتب، قرآن کریم، علوم القرآن اور تفسیر کے بارے میں 9، حدیث اور علوم الحدیث میں 8، امت اور دعوت پر26، اسلامی شخصیات کے حوالے سے10، اسلامی بیداری کے بارے میں 12، تاریخ پر11، شعر وادب میں15، خطبات جمعہ کے 10 حصے، لیکچرزاور محاضرات کے 33 مجموعے، انتہائی تحقیقاتی مقالات 21۔ علامہ کی شخصیت اور ہمہ جہت خدمات پر تقریباً 50 کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جبکہ 100 کے قریب اسکالرز نے ان کے کام کو موضوع بناکر تحقیقی مقالات لکھے ہیں۔ علامہ یوسف القرضاویؒ طویل عرصے تک اخوان المسلمون کے ساتھ وابستہ اور سرگرم رہے۔ اخوانی قیادت نے مختلف مناصب کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا۔ تاہم اس کے باوجود وہ کئی علمی اداروں کے سرپرست تھے۔ وہ یورپین کونسل برائے فتاویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ تھے۔ انٹرنیشنل علماءیونین کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔ انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ الجزیرہ کے مشہور پروگرام کے علاوہ وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاویٰ جاری کرتے تھے، رابطہ عالمی اسلامی اور مجمع الفقہ الاسلامی کے بھی آپ خصوصی رکن اور ذمہ دار تھے۔ جامعہ ازہر مصر کی بھی رکنیت حاصل تھی، لیکن بعد میں سیاسی وجوہ کی بنا پر یہ رکنیت معطل کر دی گئی۔ مسلمانوں کی اکثریت آپ کو معتدل، قدامت پسند اور جدید حالات سے ہم آہنگ عالم قرار دیتی ہے۔ آپ عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ بعض لوگ انہیں سخت گیر اسلام پسند قرار دیتے ہیں۔ یہودی و نصاریٰ کو آپ مستقل دشمن تصور کرتے تھے۔ آپ کا شروع سے یہ نظریہ رہا کہ مسلمان دوسروں کو مداخلت کا موقع دینے کے بجائے اپنے مسائل خود حل کریں۔ یوسف القرضاوی فلسطینیوں کے اسرائیلیوں پر حملوں کے زبردست حامی تھے۔ فرماتے کہ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف خود۔۔۔۔کش دھماکے جائز ہیں، کیونکہ وہ قابض اور غاصب ہیں، ان کا کہنا تھا کہ خود کش حملے صرف اس وقت جائز ہوں گے، جب اپنے دفاع کا کوئی دوسرا راستہ نہ بچے، ان کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ وہ عام اسرائیلی شہریوں کے خلاف حملوں کے بھی حق میں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیلی شہری جو فوج خدمات بھی سر انجام دیتے ہیں، عام شہری کی تعریف میں نہیں آئیں گے۔ شیخ یوسف کے اس موقف کی بنا پر ایک طبقہ انہیں دہشت گردی کا حامل قرار دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اسرائیل انہیں اپنا دشمن نمبر ون سمجھتا تھا۔ جس کا اندازہ کل کے اسرائیلی اخبارات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ عبرانی اخبار یدیعوت احرنوت نے ان کی وفات پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے خلاف فتویٰ دینے والا مسلمان کا سب سے بااثر عالم انتقال کرگیا۔ فلسطینی مجاہدین بھی شیخ کو اپنا پیشوا سمجھتے تھے۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ سعودی عرب نے بھی انہیں دہشت گرد اسی وجہ سے قرار دیا کہ وہ اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کے حملہ کو درست ٹھہراتے تھے اور اسر،ا،ئیل کے خلاف نظریہ رکھتے ہیں۔ تاہم شیخ القرضاوی کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملے صرف اسرائیلی اہداف کے خلاف جائز ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں بھی ان کی اجازت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 20 مارچ 2005ء کو دوحہ، قطر میں کار بم دھماکا ہوا تو انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ اس واقعے میں ایک برطانوی شہری جان ایڈمز مارا گیا تھا۔ شیخ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ 2006ءمیں اسرائیل حزب اللہ جنگ شروع ہوئی تو ایک مسلمان اسکالر عبداللہ بن جبیرین نے فتویٰ جاری کیا کہ مسلمانوں کے لیے حزب اللہ جیسے دہشت گرد گروہ کی حمایت جائز نہیں، کیونکہ وہ شیعہ ہیں۔ تاہم شیخ یوسف القرضاوی نے کہا کہ مسلمانوں پر اسر،ائیل کے خلاف حزب اللہ کی مدد لازم ہے۔ اسی طرح انہوں نے عراق کے سنیوں اور شیعوں سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ خانہ جنگی ختم کریں، شام پر روس کے حملے کے بھی آپ شدید مخالف تھے اور روس کے اس اقدام کو آپ دہشت گردانہ حملہ مانتے تھے۔ انہوں نے14 اپریل 2004ء کو اسلام آن لائن پر ایک فتویٰ جاری کیا کہ تمام مسلمان امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں، کیونکہ وہ ان مصنوعات کے بدلے حاصل ہونے والی رقم سے معصوم فلسطینی بچوں کے جسم چھلنی کرنے کے لیے گولیاں اور دیگر اسلحہ خریدتے ہیں۔ اسرائیلیوں کی مصنوعات خریدنا دشمن کی وحشت و جارحیت میں مدد کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دشمنوں کو کمزور کریں۔ اگر ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے وہ کمزور ہوتے ہیں تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ دوسرا اسرائیل بن چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو رقم، اسلحہ سمیت سب کچھ فراہم کر رہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو نیست و نابود کر دے۔ شیخ یوسف القرضاوی کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گرینوچ ٹائم کے بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اصطلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے توہین آمیز کارٹون بنائے تو شیخ قرضاویؒ نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں تشدد کرنا جائز نہیں۔ نائن الیون کے واقعے کی خبر سنتے ہی شیخ قرضاوی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زخمیوں کے لیے خون کے عطیات دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام صبر و تحمل کا دین ہے۔ وہ انسانی جان کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے گناہ عظیم ہے۔ شیخ قرضاوی کا کہنا تھا کہ عراق میں جانے والے سارے امریکی ”حملہ آور“ سمجھیں جائیں گے، ان کے درمیان فوجی یا سویلین کی کوئی تفریق نہیں، اس لیے ان کے خلاف جہا،د فرض ہے تاکہ عراق سے انخلا پر مجبور ہو جائیں، ان کے اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا، عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور مجبور ہوکر انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں جہاد یعنی ”جدوجہد“ کا لفظ استعمال کررہا ہوں ”قتل“ کا نہیں۔ امریکہ میں 1999ءمیں سے آپ کے داخلے پر پابندی عائد کی گئی، جو زندگی بھر برقرار رہی۔ 2008ءسے برطانیہ نے بھی آپ کے جانے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ قبل ازیں 2004ءمیں آپ نے برطانیہ کا دورہ کیا تھا، اس کے علاوہ بھی مغرب کے کچھ ممالک نے آپ پر بابندی لگا رکھی تھی۔ (جاری ہے) (ضیاء چترالی)