نمائندہ امت:
عمران خان نے اپنے ممکنہ لانگ مارچ کی تمام تر امیدیں ’’گرین سگنل‘‘ سے وابستہ کر لی ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں ایک جلسے میں خطاب کے دوران انہوں کہا کہ ’’میں آپ کو کال دوں گا لیکن زیادہ نوٹس نہیں دوں گا۔ لانگ مارچ کی کال تب دوں گا، جب میرے مخالف سمجھیں گے کہ عمران خان پیچھے ہٹ گیا۔ اس وقت میری ایک گیند سے تینوں کی وکٹیں گریں گی‘‘۔ اس ضمن میں با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو یقین نہیں ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں نکلیں گے۔ اگر کچھ لوگ اسلام آباد کی جانب نکلے بھی تو وفاقی حکومت ان کو 25 مئی کے لانگ مارچ کی طرح ٹریٹ کرے گی۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ تمام پیشگی انتظامات مکمل کر چکے ہیں۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کو بھی لانگ مارچ پر تحفظات لاحق ہیں۔ جبکہ پرویز الٰہی بھی بزدار حکومت جیسا تعاون کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کا ’’ٹُول‘‘ بننے کا تاثر لینا، سیاسی نقصان سمجھتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے لانگ مارچ میں عدم تعاون کا خوف عمران خان کو یقیناً لاحق تھا۔ کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو تحفظات تھے۔ پی ٹی آئی کے ارکان پنجاب اسمبلی کہتے ہیں کہ پنجاب میں اکثریت ان کی ہے، لیکن دس سیٹوں والی جماعت کا وزیر اعلیٰ پنجاب کے تمام اضلاع پر ڈیولپمنٹ کے فنڈز اپنے طور پر جہاں جی چاہتا ہے، لگا رہے ہیں۔ ادھر مونس الہٰی کی بیوی بسمہ چوہدری نے جو چوہدری شجاعت حسین کی بیٹی ہیں، چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے درمیان صلح کی کوششیں تیز کر دیں ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خاندانی طور پر تو معاملات سیٹل ہوچکے ہیں لیکن ابھی انہوں نے اس بات کا اعلان نہیں کیا۔ تاہم یہ بات بہرحال پی ٹی آئی کے کیمپ میں بھی سنی جا چکی ہے کہ اندرون خانہ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے معاملات طے ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کافی احتیاط کر رہے ہیں اور لانگ مارچ اس وقت تک موخر کیے ہوئے ہیں، جب تک طاقت ور حلقوں سے انہیں ’’گرین سگنل‘‘ نہیں ملتا۔ دوسری جانب گزشتہ روز کی آڈیو لیک نے سائفر سازش کا بھانڈا پھوڑ کر عمران خان کے لانگ مارچ کو مزید پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اب جب تک عمران خان کو ’’گرین سگنل‘‘ نہیں ملتا، وہ لانگ مارچ نہیں کریں گے۔ ادھر اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے سے عمران خان مزید نا امید ہو چکے ہیں۔
ذرائع کا پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کے لانگ مارچ پر اختلاف کے حوالے سے کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے بعض سینئر ترین پارٹی عہدے دار لانگ مارچ کے حق میں نہیں ہیں۔ ان کے پیش نظر اسٹبلشمنٹ کی ناراضی سمیت وفاقی حکومت کی وہ ’’ٹریٹمنٹ‘‘ ہے جو 25 مئی کو پی ٹی آئی کارکنان کے ساتھ کی گئی تھی۔ اب بھی رانا ثناء اللہ نے لانگ مارچ کو روکنے کی غرض سے اسلام آباد ڈی چوک سمیت ان تمام راستوں، خاص طور پر فیض آباد، منڈی موڑ، آئی ٹین، کٹاریاں اور دیگر چھوٹے راستوںکو بند کرنے کا مکمل بندکرنے کا پلان تیار کرلیا ہے۔ حتیٰ کہ خیبر پختون سے آنے والوں کے لیے اٹک پل کے پار بھی منصوبہ بندی تیار کی گئی ہے۔ اس تمام صورت حال میں پی ٹی آئی سینئر قیادت کا خیال ہے کہ لانگ مارچ فی الحال موخر کرنا ہی بہتر ہے۔ البتہ پی ٹی آئی میں کچھ لیڈر ایسے بھی ہیں جو ہر حال میںلانگ مارچ چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بنیادی ارکان انہیں ’’پیرا شوٹرز‘‘ کہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں مختلف سیاسی پارٹیوں سے جمپ کر کے پی ٹی آئی میں آئے۔ اور کچھ کے بارے میں قیاس ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے پے رول پر ہیں۔ ذرائع کے بقول لانگ مارچ پر زور دار قسم کا دبائو وہ آڈیو کلپ بھی ہے جو عمران خان اور اعظم خان کے درمیان سائفر کو سازش بنانے کی منصوبہ بندی پر لیک ہوا ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس سے زیادہ خطرناک آڈیو بھی موجود ہے جسے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کو سنایا جاچکا ہے۔ یعنی عمران کو یہ پیغام بھی بھیجا جاچکا ہے کہ ملک میں افراتفری نہ پھیلائیں، ورنہ اس کے سدباب کے لیے بہت کچھ مواد موجود ہے۔