عمران خان:
ملک میں زر مبادلہ کی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون میں حساس ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو نے ڈالرزاور دیگر غیر ملکی کرنسی کی غیر قانونی خرید و فروخت اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث 150 افراد کی فہرست مزید کارروائی کیلیے ایف آئی اے کے حوالے کردی ہے۔ ان تمام افراد کا تعلق کراچی سے ہے۔ جن میں کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کے ایجنٹوں کے علاوہ تاجر اور دکاندار بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب کراچی کی موبائل مارکیٹ میں ہنڈی حوالے کے بڑے نیٹ ورک کے خلاف ایف آئی اے کی کارروائی کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ اسٹار مارکیٹ میں فہیم اور یاسین نامی افراد کئی برسوں سے غیر ملکی کرنسی کا کام کر رہے تھے۔ جو موبائل مارکیٹ کے سینکڑوں تاجروں کو کروڑوں ڈالرز، درہم، پائونڈز اور دیگر کرنسی سپلائی کرکے کروڑوں روپے کا ناجائز منافع بٹور چکے ہیں۔ ایف آئی اے کے ناکام چھاپے کے بعد سے ہی دونوں تاجر کام بند کرکے منظر عام سے غائب ہوچکے ہیں۔ جن کی تلاش جاری ہے۔
’’امت‘‘ کی معلومات کے مطابق اسٹیٹ بینک کے پاس زر مبادلہ کی کمی اور اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالرز کی بڑے پیمانے پر سٹہ بازی اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے کیلیے وفاقی حکومت کی جانب سے کرنسی کی ’’گرے مارکیٹ‘‘ کا حجم کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ اس لین دین کے بڑے حصے کو مشکوک درجہ بندی سے نکال کر ’’وائٹ مارکیٹ‘‘ یعنی شفاف اور دستاویزی بنایا جا سکے۔ اس حوالے سے ایف آئی اے کی جانب سے نئے ڈائریکٹر جنرل محسن بٹ کی سربراہی میں ملک بھر کے تمام شہروں میں کریک ڈائون شروع کردیا گیا ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر90 فیصد کارروائیاں ایف آئی اے کی جانب سے خیبر پختون میں کی گئیں۔ جبکہ پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں ایف آئی اے صرف 10 فیصد کارروائیاں کرسکی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک کی جانے والی کارروائیوں کی سمت ہی مکمل طورپرغلط ہے۔ کیونکہ خود ایف آئی اے کی ماضی کی رپورٹوں میں اس بات کی نشاندہی کی جا چکی ہے کہ زر مبادلہ مبادلہ کی اسمگلنگ اورغیر قانونی ترسیل میں 80 فیصد حصہ ’’ٹریڈ بیسڈ‘‘ حوالہ ہنڈی کا ہے۔
یعنی ملک بھر میں 80 فیصد زر مبادلہ غیر قانونی طور پر وہ وہ افراد خریدتے اور اسمگل کرتے ہیں۔ جنہوں نے بیرون ملک اسمگلنگ کے ذریعے منگوائے گئے سامان کی ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ ان میں کار شوروم مالکان، الیکٹرونک، کپڑے، موبائل، کاسمیٹکس، جیولری، گھڑیوں اور کھانے پینے کے سامان کے تاجر اور ٹیکسٹائل، ادویات اور کیمیکل کے صنعتکار شامل ہیں۔ ایران، افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ سے منسلک عناصر، سونے کے تاجر اور ایئر پورٹس سے سامان لانے والے کھیپیے اس غیر ملکی کرنسی کے بڑے خریدار ہیں۔ تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ہر بار زر مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل روکنے کی حکومتی ہدایات ملنے پر کارروائیاں صرف چھوٹے اور معمولی ایجنٹوں کے خلاف کی جاتی ہیں۔ جو چند ہزار کی غیر ملکی کرنسی رکھ کر کام کرتے ہیں اور بڑے مگرمچھوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جو بڑے بڑے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ ایسے بڑے ملزمان نے ماضی میں تحقیقات میں نام آنے پر بچنے کیلئے بھاری رشوت کا استعمال کیا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول زرمبادلہ کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ترسیل کا دھندا سب سے زیادہ کراچی میں کیا جاتا ہے۔ جو سٹہ بازی کا گڑھ ہے۔ اس کے بعد کوئٹہ، پشاور اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار ایف آئی اے کی کارروائیوں کی نگرانی اور اس میں تعاون کا ٹاسک حساس اداروں کو سونپ دیا گیا ہے۔ جنہوں نے کرنسی کی اوپن مارکیٹ، منی چینجرز اور اسمگلنگ کے نیٹ ورکس سے متعلق معلومات جمع کرکے 150 سے زائد ایسے بڑے مگرمچھوں کی فہرست تیار کرلی ہے۔ جو طویل عرصہ سے زر مبادلہ کی مد میں ملک کی معیشت کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ فہرست ایف آئی اے کو مل چکی ہے۔ جس پر مزید تحقیقات کرکے اب تک متعدد کارروائیاں کی جا چکی ہیں۔
انہی کارروائیوں کے سلسلے میں کراچی کی مرکزی موبائل مارکیٹ میں ہنڈی حوالہ نیٹ ورک کی اطلاع پر کی جانے والی ایف آئی اے کی ناکام کارروائی کے بعد معلوم ہوا ہے کہ ایف آئی اے افسران کی نااہلی کی وجہ سے فہیم اور یاسین نامی افراد فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جن کے حوالے سے ایف آئی اے کراچی میں انکوائری کی جا رہی ہے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر دکانداروں کو بھی شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ تاہم ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کی جانب سے اس معاملے کو دیکھا جا رہا ہے کہ مستقبل میں ایف آئی اے کے زونل افسران اپنی غفلت اور نااہلی کی وجہ سے ایسی کارروائیوں کو ناکام کرنے کے بجائے کامیاب بنائیں اور اس نیٹ ورک کے خلاف مضبوط مقدمات قائم کئے جاسکیں۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ فہیم اور یاسین کو ملک سے فرار ہونے سے روکنے کیلئے ان کے کوائف ایئرپورٹس پر ایف آئی اے امیگریشن اسٹاف کو فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جبکہ اس نیٹ ورک سے جڑے دیگر افراد جن میں فرحان، سمیر اور عمران شامل ہیں۔ ان کے موبائل مارکیٹ میں سرگرم نیٹ ورک کی نگرانی بھی شروع کردی گئی ہے۔ تاکہ ان کی کھیپوں کے کیریئرز یعنی سپلائی کیلئے استعمال ہونے والے کارندوں کو کرنسی اور سامان کی اسمگلنگ کے ساتھ ایئر پورٹس سے ہی رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جا سکے۔