عمران خان:
تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں کسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکومتی ریلیف میں اربوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔ غریب اور مستحق کسانوں کو ٹریکٹر کی خریداری کی مد میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کئی صنعتکار اور ڈیلر ہڑپ کرگئے۔ ایف بی آر نے لوٹی جانے والی قومی دولت کی ریکوری کے لئے ملک کی معروف ٹریکٹر ساز کمپنی ملت انڈسٹریز، فرگوسن ٹریکٹر کے مالکان سمیت ملوث ڈیلروں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کی جانب سے جعلسازی اور ٹیکس چوری کے ایک بڑے اسکینڈل پر تحقیقات ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو کے سپرد کی گئی ہے۔ جس میں کسانوں کے نام پر ہزاروں ٹریکٹرز کی فروخت ظاہرکرکے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی رقوم فیکٹری مالکان کی جانب سے ری فنڈز کی صورت میں قومی خزانے سے وصول کی گئی۔ تاہم درحقیقت مذکورہ ٹریکٹرز کی جن کسانوں کو فروخت ظاہر کی گئی۔ وہ اس سے لاعلم نکلے۔ جبکہ مذکورہ ٹریکٹر ملک کے بڑے بڑے ڈیلروں کو سپلائی کر دیے گئے۔ جنہوں نے رعایتی نرخوں پر یہ ٹریکٹر حاصل کرکے 100 فیصد کمرشل نرخوں پر مارکیٹ میں فروخت کر دیئے۔ اس طرح سے فیکٹری مالکان اور ڈیلرز نے ایف بی آر سے ری فنڈ کلیم کرکے اور مارکیٹ میں پوری قیمتوں پر ٹریکٹر فروخت کر کے اربوں روپے کا دو طرفہ ناجائز منافع اپنی جیبوں میں ڈال لیا۔ فراڈ اور ٹیکس چوری کی ان وارداتوں میں فیکٹری مالکان اور ڈیلروں کو ایف بی آر کے لارج ٹیکس پیئر یونٹ کے آڈٹ افسران اور ری فنڈ منظوری کر کے جاری کرنے والے افسران کی مکمل سہولت کاری حاصل رہی۔ جس کے عوض انہیں بھاری کمیشن سے نواز جاتا رہا۔
ابتدائی طور پر اس کرپشن کا تخمینہ 6 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ جبکہ کسانوں کے نام پر فروخت کئے جانے والے ٹریکٹرز کے گزشتہ کئی برسوں کے ڈیٹا کی چھان بین کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں بٹوری جانے والے رقوم کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ دستاویزات کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب میں اس اسکینڈل کے حوالے سے تحریری درخواست بمع ثبوت اور ریکارڈ داخل کی گئی ہے۔ جس پر رواں ہفتے تحقیقات مکمل کر کے ملوث کمپنی مالکان اور ایف بی آر کے مجاز ڈپارٹمنٹ سے تحریری جواب طلب کرلیا گیا ہے۔
دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے دور میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے مستحق کسانوں کو سستے داموں ٹریکٹرز فراہم کرکے انہیں ریلیف فراہم کرنے کی غرض سے ایک سرکاری اسکیم شروع کی گئی۔ جس کے لئے SRO:1248(I) 2020 dated 23-11-2020 & SRO:563(I) 2022 dated 29-4-2022 جاری کئے گئے۔ ان ایس آر اوز کے تحت پاکستان میں ٹریکٹر کے پرزے درآمد کرکے مقامی سطح پر ٹریکٹر تیار کرنے کے بعد کسانوں کو فروخت کرنے والی کمپنیوں کو سبسڈی دی گئی کہ وہ کسانوں کو سستے داموں ٹریکٹر فراہم کریں اور اس ضمن میں اپنی فروخت کا ریکارڈ ایف بی آر میں جمع کرو اکر پرزوں کی درآمد اور ٹریکٹر کی مینو فیکچرنگ پر نافذ ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ حاصل کریں۔ جس کے لئے ان فیکٹریوں کی انتظامیہ کے لئے لازمی تھا کہ وہ ہر ٹریکٹر کی فروخت کا مکمل ریکارڈ ایف بی آر آڈٹ کے لئے فراہم کرتے۔ جس میں خریدنے والے کسان کے شناختی کوائف، رہائشی ایڈریس، ادائیگی کا ریکارڈ شامل ہو۔ اس کے بعد ہی ان کو قومی خزانے سے ری فنڈز کلیم کرنے کے بعد ادا کیا جا سکتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق ملک کی معروف ’’ملت ٹریکٹر‘‘ ساز کمپنی ملت ٹریڈرز کی جانب سے 2021ء سے 2022ء کے دوران ملک میں کسانوں کو ’’فرگوسن برانڈ‘‘ کے ٹریکٹرز کی فروخت ظاہر کرکے 5 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کے ری فنڈز کلیم داخل کئے گئے۔ جس میں سے ڈیڑھ ارب روپے کے قریب ان کے کلیم ایف بی آر لارج ٹیکس پیئرز یونٹ کے افسران نے منظوری کرکے ادا بھی کر دیئے۔ تاہم اس فروخت کے ریکارڈ کی چھان بین کرنے پر انکشاف ہوا کہ سینکڑوں ٹریکٹرز کسانوں کے بجائے پنجاب اور سندھ کے کمرشل ڈیلرز کو فروخت کیے گئے۔ جنہوں نے ادائیگیاں بھی اپنے کاروباری کھاتوں سے کیں۔ تاہم ایف بی آر میں جعلی کلیم داخل کرنے کے لئے کمپنیوں کی جانب سے سینکڑوں کسانوں کے شناخی کوائف استعمال کیے گئے۔ جنہوں نے یہ ٹریکٹر خریدے ہی نہیں تھے۔ اس طرح سے مالی فراڈ کے ساتھ ہی شہریوں کے شناختی کوائف کا غلط استعمال کرنے کا بھی سنگین جرم کیا گیا۔ اس اسکینڈل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ ٹیکس چوری اور فراڈ کی ان وارداتوں میں ایف بی آر کے آڈٹ افسران نے بھی کمپنیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور مکمل چھان بین کرنے کے بجائے سرسری آڈٹ کرنے کے بعد اربوں روپے کے جھوٹے کلیم منظور کیے۔ جس کے نتیجے میں انہیں بھاری کمیشن سے نوازا جاتا رہا۔
وفاقی محتسب کی جانب سے تحریری مراسلے میں ایف بی آر حکام کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ملوث ملت ٹریڈرز کمپنی اور کمرشل ڈیلرز کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے۔ جبکہ اس میں سہولت کار ایف بی آر افسران کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے۔ ایف بی آر ذرائع کے بقول اس معاملے پر بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔ جس میں ملت ٹریڈرز کے مالکان، ان کے ملک بھر میں موجود ڈیلرز، کسانوں کے کوائف فراہم کرنے والے پٹواریوں اور ملوث ایف بی آر افسران کے ساتھ ہی دیگر ٹریکٹر کمپنیوں کے مالکان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ان کمپنیوں سے سرکاری اسکیم کے معاہدے کرنے والے قومی بینک اور اداروں کا ریکارڈ حاصل کرکے چھان بین شروع کردی گئی ہے۔ تاکہ کسانوں کو ریلیف دینے کیلئے سیلز ٹیکس کی چھوٹ کا غلط استعمال کرنے والوں سے قومی دولت کی ریکوری کی جاسکے۔