دوسرا حصہ
’’وہ آیا اور چھا گیا‘‘ اس نے اپنے خواب سے بڑی تعبیر پائی
کامیابی اور غیر معمولی کامیابی کے حوالے سے تمام محاورے اس پر صادق آتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ پلک جھپکنے میں نہیں ہو گیا نہ ہی وہ سونے کا نوالہ لے کر پیدا ہوا تھا۔ بلکہ اس کامیابی کے پیچھے پچپن برس کی شبانہ روز محنت، لگن، عرق ریزی اور ہنرکاری کارفرما ہے۔ اس نے منزل کے حصول کے لیے رات دن ایک کر دیا اور پھر پروردگار اس پر ایسا مہربان ہوا کہ اب ملک اور بیرون ملک جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں اس کا نام ’’برانڈ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے اپنے نام کی لاج ایسی رکھی کہ آج ’’امتیاز‘‘
کو ہائوس ہولڈ آئٹمز کے میدان میں وہ امتیازی مقام حاصل ہے جس کی خواہش تو اس شعبے کے بے شمار لوگوں نے کی ہو گی، مگر قسمت ہی سے کسی کے حصے میں آیا ہو گا۔ کراچی کے علاقے بہادر آباد سے ساڑھے پانچ دہائیاں قبل اپنے والد کے ساتھ پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان سے کاروبار کا آغاز کرنے والے امتیاز عباسی آج ملک کے تمام بڑے اور اہم شہروں میں دو درجن کے قریب سپر مارکیٹس کے مالک ہیں اور ملکی معیشت میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ امتیاز سپر مارکیٹ میں کم و بیش 13 ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ امتیاز نے ان تمام آئوٹ لیٹس پر ایک چھت کے نیچے حیرتوں کا ایک جہان آباد کر رکھا ہے جہاں ضروریات زندگی کی وہ تمام اشیا دستیاب ہیں جن کا انسان تصور کر سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امتیاز کے ہاں فروخت ہونے والے آئٹمز کی تعداد 82 ہزار کے قریب ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں خریداری کے لیے آنے والا خاندان اپنی شاپنگ لسٹ سے تجاوز پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سپر مارکیٹنگ کی جدید ترین جہتوں اور ٹیکنالوجی سے لیس ’’امتیاز‘‘ نے پاکستان میں شاپنگ کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے اور یہ معیار اور قیمت کے لحاظ سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے والی ریٹیل انڈسٹری کی سب سے بڑی آرگنائزیشن بن گیا ہے۔ ایبٹ آباد کے ایک دور افتادہ پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے امتیاز حسین عباسی نے یہ مقام کیسے حاصل کیا؟ یہ جاننے کے لیے ’’امت‘‘ نے ان سے خصوصی گفتگو کی جو سوال جواب کی صورت میں نذر قارئین ہے۔
ملاقات ۔ سجاد عباسی
س: سن 2000ء میں آپ نے بہادر آباد کے بعد دوسری سپر مارکیٹ عوامی مرکز میں قائم کی؟
ج: جی، یہ بہادر آباد کے بعد ہماری دوسری برانچ تھی جس پر ہم نے کافی محنت کی اور بزنس کو مزید مستحکم کرنے میں کئی برس لگ گئے۔ اس دوران میرے بیٹے عمر امتیاز اور کاشف امتیاز تعلیم مکمل کر کے 2005-06ء میں کاروبار سنبھالنے کے لیے آگئے، جس کے بعد 2008ء میں ہم نے ناظم آباد میں امتیاز سپر مارکیٹ کھول لی۔ اس کے بعد چار پانچ سال کے فرق سے 2013ء میں ڈی ایچ اے کی برانچ قائم کی۔ اس دوران ہم اپنی مارکیٹ میں آئٹمز کی تعداد بڑھانے اور کاروبار کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی بھی متعارف کراتے رہے۔ پھر کچھ عرصے بعد ہم نے گلشن اقبال کی سپر مارکیٹ کی بنیاد رکھی۔ اس برانچ سے ہمارے بزنس کو مزید وسعت ملی اور پھر زمزمہ کلفٹن سمیت پورے کراچی میں امتیاز کی 12 برانچیں قائم ہو گئیں۔ اس وقت الحمدللہ کراچی کی بارہ برانچوں کے علاوہ پنجاب میں بھی امتیاز سپر مارکیٹ کی بارہ شاخیں قائم ہو چکی ہیں۔
س: پنجاب کا تجربہ کیسا رہا؟ کراچی تو ایک بڑا صنعتی اور کاروباری شہر ہے۔ یہاں بزنس کے لیے آسانیاں بھی بہت ہیں۔ وہاں مشکلات تو پیش آئی ہوں گی؟
ج: جی بالکل۔ کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر سے جو ہمارا بیس کیمپ تھا، نکل کر پنجاب جانا ایک بڑا چیلنج تھا۔ وہاں سب سے پہلے ہم نے گجرات کا انتخاب کیا۔ گوجرانوالہ سے ٹیم کی سلیکشن کی۔ آپ نے مشکلات کی بات کی، لیکن میں آپ کو بتاؤں کہ وہاں ہمیں ناقابل یقین پذیرائی ملی۔ ایسا لگتا تھا کہ پنجاب کے لوگ امتیاز کے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر ہم نے تھوڑے ہی وقفے کے بعد فیصل آباد کی برانچ قائم کی۔ اس کے بعد لاہور میں ہم نے تین اسٹور بنا لیے۔ پھر اسلام آباد میں امتیاز کی دو برانچیں قائم کر دیں، ایک مین جی ٹی روڈ پر روات کے قریب اور دوسری فیصل ایونیو پر گلبرگ گرین کے پاس۔ پھر سیالکوٹ میں ہم نے پاکستان کا سب سے بڑا پروجیکٹ بنا دیا۔ اس کے بعد بہاولپور کی برانچ قائم کی اور اب وہاڑی جا رہے ہیں۔ ابھی دو ہفتے پہلے سرگودھا کی برانچ کا افتتاح ہوا اور آئندہ ہفتے بحریہ ٹاؤن لاہور میں افتتاح ہونے والا ہے۔ تو الحمدللہ پنجاب میں ہمیں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس لیے کہ کراچی میٹروپولیٹن شہر ہے۔ یہاں ملک کے ہر علاقے کے لوگ بستے ہیں تو امتیاز کا تعارف اور ساکھ دوسرے شہروں میں پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ اس لیے ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ ایک کے بعد ایک برانچ قائم کرتے چلے گئے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
س: اسلام آباد میں تو آپ نے امتیاز کی دو برانچیں قائم کر دیں مگر جڑواں شہر راولپنڈی میں اب تک کوئی شاخ نہیں کھولی گئی جبکہ یہ آبادی کے لحاظ سے بڑا شہر ہے اور پھر آپ کا اصل ہدف مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس ہے؟
ج: اصل وجہ یہ تھی کہ ہم نے پہلے اپر اور سینٹرل پنجاب کو کور کیا۔ اس کے بعد ہم اسلام آباد گئے۔ اب ہم جنوبی پنجاب کو مکمل کر رہے ہیں جیسا کہ آپ کو بتایا بہاولپور اور وہاڑی کی برانچیں کھل چکی ہیں۔ اس کے بعد راولپنڈی برانچ کھولنے کا ارادہ ہے۔ ویسے بھی وہ ہمارا اپنا شہر ہے جہاں سے ہمارا آبائی علاقہ صرف دو گھنٹے کی مسافت پر ہے تو جلد ہی پنڈی میں بھی افتتاح ہو جائے گا انشااللہ۔
س: اب تک ملک بھر میں امتیاز کی 25 برانچیں فعال ہو چکی ہیں۔ آپ کا ہدف کیا ہے۔ مزید کتنی برانچیں کھولنے کا ارادہ ہے؟
ج: اس حوالے سے کوئی خاص تعداد متعین نہیں کی۔ جہاں جہاں کاروبار کے لحاظ سے حالات سازگار ہوئے ہم وہاں اسٹورز بناتے چلے جائیں گے۔ ایک خاص بات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا بنیادی مقصد امتیاز اسٹور کی برانچوں کی تعداد میں اضافہ کرنا نہیں ہے۔ الحمدللہ میری عمر 68 برس ہو چکی ہے۔ ایسا بھی کوئی ہدف نہیں کہ میں بے پناہ دولت جمع کرلوں۔ ہماری بنیادی سوچ یہ ہے کہ ہر شہر اور علاقے میں ہماری برانچ اس طرح کھلے کہ وہاں کم از کم 5 سو لوگوں کو روزگار مل سکے۔ ان کے گھر چلیں۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوں اور ان کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں کیونکہ کاروبار کے ساتھ ساتھ مخلوق کی بھلائی بھی ایک اہم موٹو ہے۔ میرا مقصد کاروبار کے ساتھ ساتھ لوگوں کو Facilitate کرنا اور اچھی اور معیاری اشیا اس کے مقابلے میں مناسب قیمت پر فراہم کرنا ہے۔ میں اپنے رب کا کروڑہا بار شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے اس قابل بنایا کہ آج امتیاز کا نام ملک کے طول و عرض میں ہر بچے اور بڑے کی زبان پر ہے۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ یہ سب کچھ کس طرح ممکن ہو گیا۔ یہ جتنے بھی وسائل (Resources) ہیں اس خالق اور مالک کے عطا کردہ ہیں۔ ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیک نیتی کی وجہ سے رب کریم ہمیں مسلسل کامیابی عطا کر رہا ہے۔
س: آپ نے بتایا کہ آپ کے پاس 13 ہزار لوگ کام کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں چوکیدار سے لے کر منیجر تک سب لوگ شامل ہیں۔ تو کس سطح کے تعلیم یافتہ ملازمین آپ کے ہاں کام کر رہے ہیں؟
ج: پہلے وقتوں میں ہمارے پاس پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جو بھی لوگ تھے ہم ان سے کام چلاتے تھے۔ اب چونکہ ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی پر مبنی سسٹم موجود ہے جو ہم امریکہ سے لائے ہیں۔ پاکستان کی کسی بھی سپر مارکیٹ میں یہ سسٹم سب سے پہلے ہم نے لگایا۔ اس پر ہم نے بہت بڑی انویسٹمنٹ بھی کی۔ اس سسٹم میں ظاہر ہے تعلیم یافتہ لوگ ہی چل سکتے ہیں۔ پھر ہماری ایک ٹیم ہے جو لوگوں کو ٹریننگ بھی دیتی ہے۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ تربیت یافتہ اسٹاف ہمارے پاس کام کر رہا ہے۔ اب ظاہر ہے ڈرائیور، چوکیدار وغیرہ سمیت چھوٹی پوسٹوں پر غیر تعلیم یافتہ لوگ بھی کام کر رہے ہیں یا جو کم پڑھے لکھے ہیں وہ بھی ہماری ٹیم کا حصہ ہیں۔
س: دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی امتیاز سپر اسٹور یا مارکیٹ میں چلے جائیں۔ خریداروں کا بے پناہ رش اور ہرکیش کاؤنٹر پر ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ مفت میں سامان بٹ رہا ہے۔ تو آپ کے نزدیک وہ کون سی دو تین بنیادی چیزیں ہیں جو امتیاز کو دوسرے اسٹورز سے ممتاز کرتی ہیں اور آپ کے پاس گاہک زیادہ آتا ہے؟
ج: تین بنیادی چیزیں تو ہیں ورائٹی، کوالٹی اور پرائس۔ مگر ان تمام چیزوں پر حکمت کا عنصر غالب آجاتا ہے۔ جب آپ مخلوق کی آسانی کو ذہن میں رکھ کر کاروبار کرتے ہیں تو خالق اپنی مخلوق کے دل میں یہ بات خود ڈال دیتا ہے کہ آپ کو کس طرف جانا ہے۔ اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ جو قطاریں آپ کو نظر آتی ہیں وہ کوالٹی، ورائٹی، سروس اور نیک نیتی کی عکاسی تو کرتی ہیں مگر اس سب سے بڑھ کر خدا کی مہربانی ہے۔ اگر وہ نہ چاہے تو ایک بندہ بھی اسٹور میں داخل نہیں ہو گا۔ میں ابھی سرگودھا برانچ کا افتتاح کر کے آیا ہوں۔ سرگودھا میرے لیے نیا شہر ہے مگر وہاں شام پانچ بجے سے رات بارہ بجے تک سولہ ہزار لوگ آئے۔