لاپتہ شہری کو اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا دیا گیا

اسلام آباد: لاپتا شہری منیب اکرم کو اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شہری کو آج تک بازیاب کرانے کا وقت دیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ شہری منیب اکرم کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے نمائندہ وزارت دفاع سے استفسار کیا کہ یہ اچانک دوسرا تیسرا واقعہ ہے، یہ بتا دیں ایسا ہو کیوں رہا ہے ؟ یہ بتا دیں اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ جس پر نمائندہ وزارت دفاع نے کہا کہ ہم نے اس عدالت کے حکم کے بعد اپنی ایجنسیز کو مسنگ پرسن سے متعلق معلوم کرنے کا کہا، دونوں ایجنسیز کی انوسٹی گیشن کے بعد معلوم ہوا کہ ہماری دونوں ایجنسیز کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیز دنیا کی بہترین ایجنسیز میں سے ہیں، کوئی بھی شہری اٹھایا جائے تو ایجنسیز کا کام اس سے متعلق معلوم کرنا ہے، ایجنسیز کا یہ کام نہیں کہ صرف یہ بتائیں کہ ہمارے پاس نہیں، اب آپ بتا دیں کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ عدالت اپنے تفصیلی فیصلے میں ذمہ داروں کا تعین کر چکی ہے۔

عدالت کے سوال کرنے پر منیب اکرم نے بتایا کہ میں 19 اگست کو گھر پر سویا ہوا تھا، کچھ لوگوں نے مجھے باہر بلایا، مجھ سے لپ ٹاپ کا پاس ورڈ لیا گیااور انہوں نے کہا کہ فیس بک، ٹوئٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا، پھر پانچ چھ گھنٹے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔

منیب اکرم نے عدالت کو بتایا کہ اُن کی وجہ سے میں ڈر گیا تھا، انہوں نے مجھے کلر کہار اتار دیا ۔ میں 40 دن تک دوست کے پاس گاؤں میں رہا۔ جو لوگ تھے، انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔

منیب اکرم نے عدالت کو بتایا کہ اُن کی وجہ سے میں ڈر گیا تھا، انہوں نے مجھے کلر کہار اتار دیا ۔ میں 40 دن تک دوست کے پاس گاؤں میں رہا۔ جو لوگ تھے، انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔عدالت نے سوال کیا ایس ایچ او صاحب! آپ کے علاقے میں کیسے یہ لوگ گھس رہے ہیں؟۔ پولیس کے ڈی ایس پی لیگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کورٹ یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ یہ شہر میں اچانک کیا ہورہا ہے؟۔

عدالت نے کہا کہ آپ اپنی فیملی کو تو بتاتے اگر 6 گھنٹے بعد انہوں نے چھوڑ دیا تھا ؟، جس پر منیب اکرم نے جواب دیا کہ میں ڈرا ہوا تھا اس لیے فیملی کو نہیں بتایا ۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ریاست کی ناکامی ہے اور ریاست حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو کوئی کیسے ہمت کرے گا ؟۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اگر یہ لڑکا نہ ملتا تو عدالت ان سب کو ذمہ دار ٹھہراتی، آپ کو ہدایت ہے کہ اس فیصلے کو ایک مرتبہ پڑھ لیں۔