امت رپورٹ:
کراچی سے چلنے والے سٹے کے 13 واٹس ایپ گروپوں نے پچھلے دو برس سے ملک میں صرافہ مارکیٹوں کو جوئے خانہ بنا کر رکھا ہے۔ اس دوران سونے کی قیمتوں پر سٹہ کھیلنے والے سینکڑوں افراد اربوں روپے بٹور چکے ہیں۔ جبکہ سینکڑوں چھوٹے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ سونے کے چھوٹے تاجروں کو نقصان کے علاوہ صرافہ بازار میں ہونے والے اس سٹے کے سبب سونے کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے بھی دور ہوتی گئیں۔ کیونکہ قیمتوں میں مصنوعی اتار چڑھائو کے سبب مارکیٹ مستقل بنیادوں پر غیر مستحکم ہوکر رہ گئی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں یکدم ہزاروں روپے کا اتار چڑھائو عام آدمی کے لیے معمہ بنا ہوا ہے۔ صرافہ بازار میں ہونے والا سٹہ بھی اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس غیر قانونی جوئے کو روکنے کے لیے اب حکومت سخت ایکشن لینے جارہی ہے۔
خاص طور پر اسحاق ڈار کی جانب سے وفاقی وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سونے کی قیمتوں کو عوام کی پہنچ سے دور کرنے اور اربوں روپے کا ناجائز منافع بٹورنے والے اس نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے۔ جس کے تحت اس غیر دستاویزی دھندے میں ملوث بڑے مگرمچھوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ ایف آئی اے اور انٹیلی جنس ایجنسی نے بلین (Bullion) مارکیٹ کے سینکڑوں سٹوریوں کے کوائف حاصل کر کے ابتدائی فہرستیں مرتب کرلی ہیں۔ ان سٹہ بازوں کے بینک اکائونٹس کی ٹرانزیکشنز، اثاثوں کی تفصیلات، کاروبار کے اصل دستاویزی حجم اور دیگر شعبہ جات میں سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی جمع کی جا رہی ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ساتھ مل کر سونے پر سٹہ کھیلنے والے عناصر کے خلاف بڑے کریک ڈائون کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ جس کے لئے اس دھندے میں ملوث افراد کی فہرستیں مرتب کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے فہرست مکمل کئے جانے کے بعد ایف آئی اے کے حولے کردی جائے گی۔ جس پر وفاقی وزیر خزانہ، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو ملک گیر کارروائیوں کی ہدایات جاری کریں گے۔ صرافہ مارکیٹ ذرائع کے بقول سونے کی قیمتوں پر کھیلے جانے والے اس سٹہ کے لئے بلین (Bullion) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ حالانکہ انگریزی لفظ Bullion کا اصل مطلب سونے اور چاندی کی وہ خام حالت ہے۔ جسے تراش کر زیورات یا دیگر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ جن میں سونے کے بڑے ٹکڑوں، بلاکس اور بسکٹس شامل ہوتے ہیں۔
سونے پر یہ سٹہ اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی کھیلا جاتا ہے۔ لیکن وہاں ملکی قوانین، متعلقہ اداروں کے قواعد وضوابط کا خیال رکھے جانے کے علاوہ منی لانڈرنگ یا حوالہ ہنڈی جیسے جرائم سے بچنے کا دھیان رکھا جاتا ہے۔ جبکہ بلین کھیلنے والوں کو ہونے والا منافع یا نقصان بھی دستاویزی شکل میں یعنی آن ریکارڈ ہوتا ہے۔ اور یہ ریکارڈ حکومتوں کے مالیاتی لین دین اور کاروبار کے مانیٹرنگ کے اداروں کے پاس موجو د ہوتا ہے۔
صرافہ مارکیٹ ذرائع کے بقول ماضی میں کراچی کی مرکزی صرافہ مارکیٹ کھارادر میں جو شوقین تاجر Bullion کھیلتے تھے۔ اس کے قواعد و ضوابط طے شدہ تھے۔ جبکہ صرافہ بازار کے مرکز میں موجود ایک چھوٹے سے چوک پر جمع ہونے والے تاجروں کو سونے کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے ہونے والے اتار چڑھائو سے آگاہ رکھنے کے لئے کمپیوٹرز سے منسلک اسکرینیں نصب ہوا کرتی تھیں۔ جس میں دبئی سے موصول اپ ڈیٹ ریٹس کی روشنی میں بلین کھیلنے والے سونے کے تاجر سونے کی خرید و فروخت کرتے تھے۔ اس کھیل میں صرافہ بازار ایسوسی ایشن کے عہدیدار خود بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ تب قواعد و ضوابط کے تحت یہ ’’سٹہ‘‘ ہفتہ میں ایک دن صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھیلا جاتا تھا اور اس میں مقامی مارکیٹ میں سونے کے اتار چڑھائو پر زیادہ سے زیادہ ہفتہ وار 200 سے ڈھائی سو کا فرق پڑتا تھا۔
ذرائع کے بقول سٹہ ’’یعنی بلین‘‘ میں 2020 میں کئی گنا تیزی آئی اور یہ ہر طرح کے قواعد و ضوابط سے آزاد ہوگیا۔ حتیٰ کہ اس کو ہفتہ کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کھیلا جانے لگا۔ اس کے لئے ابتدا میں بعض لالچی تاجروں نے واٹس ایپ گروپ تشکیل دیئے اور اپنے ایجنٹوں کو استعمال کرکے سونے کی مارکیٹ میں مصنوعی اتار چڑھائو پیدا کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں اس میں دیگر تاجر بھی شامل ہوئے اور اب صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اب تک سامنے آنے والے 13 واٹس ایپ گروپوں میں 3 ہزار سے زائد ایسے افراد شامل ہیں۔ جو سٹہ بازی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں کو نقصان بھی ہوچکا ہے۔ تاہم وہ اپنا یہ نقصان مقامی مارکیٹ میں سونے کا لین دین کرنے کے والے عا م شہریوں سے پورا کر لیتے ہیں۔
مذکورہ سٹہ کے ملک میں سونے کی صنعت اور قیمتوں پر کیا اثرات رونما ہوئے۔ ان کا اندازہ مذکورہ اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ 45 ہزار روپے کے قریب گردش کر رہی ہے۔ رواں برس 12 ستمبر 2022 کو سب سے زیادہ قیمت ایک لاکھ 57 ہزار روپے ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ ستمبر 2019 میں فی تولے سونے کا ریٹ 80 ہزار روپے کے گرد گرش کر رہا تھا۔ جولائی 2020 سے اچانک غیر معمولی اتار چڑھائو آنے لگا اور روزانہ کی بنیاد پر فی تولے کی قیمتوں میں ایک سے دو ہزار روپے کے اتار چڑھائو کے بجائے یک دم 5 سے 10 ہزار روپے کا اتار چڑھائو دیکھا جانے لگا۔ سونے کی قیمت میں اس اتار چڑھائو میں وقت گزرنے کے ساتھ شدت آتی گئی۔ اس کا ندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگست 2021 میں فی تولہ سونے کی قیمت ایک لاکھ 7 ہزار روپے تھی۔ جبکہ صرف ایک برس کے اندر اس میں فی تولہ 50 ہزار روپے کا اضافہ روزانہ کے اتار چڑھائو کی صورت میں آچکا ہے۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک نے کبھی ریگولیٹری اتھارٹی ہونے کا دعویٰ کیا اور نہ ہی عملی قدم اٹھایا۔ جبکہ صرافہ ایسوسی ایشن خود مختار ادارے کی حیثیت سے سونے کی تجارت کی خرید و فروخت کے ریٹ مقرر کرتی رہی۔ اور جب اس سٹہ بازی میں اضافہ ہوا تو صرافہ ایسوسی ایشن اور ان کے تمام عہیدار مکمل طور پر آگاہ ہونے کے باجود خاموش رہے۔
ان گروپوں میں کھیلے جانے والے جانے والے سٹہ کا طریقہ کار یہ ہے کہ مثال کے طور پر مقامی صرافہ مارکیٹ میں شام کو ریٹ فی تولہ 1 لاکھ 38 ہزار روپے پر بند ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اصولی طور پر اس کی ٹریڈ اور بلین اگلی صبح بازار میں کام شروع ہونے تک بند رہنی چاہئے۔ تاہم اس کے برعکس ساری رات واٹس ایپ گروپو ں میں ملک کے ہزاروں تاجروں کے سامنے ٹریڈنگ چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں سونے کی قابل ذکر مقدار کی خریداری کی پیشکش رکھ دی جاتی ہے۔ یہی آفر ایک ہی نیٹ ورک کے مختلف افراد کرتے ہیں۔ جس پر ٹریڈنگ مارکیٹ میں ہلچل مچ جاتی ہے کہ ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے اور کئی تاجر 1 لاکھ 39 یا 1 لاکھ 40 ہزار فی تولہ کے حساب سے سونا بیچنے کی بولیاں لگا دیتے ہیں۔ اس دوران انہی ایجنٹوں کے کارندے صبح تک ریٹ 1 لاکھ 45 ہزار تک لے جاتے ہیں اور دبائو بڑھنے سے جب ڈیمانڈ بڑھتی ہے تو زیادہ لالچی اور سرمایہ کاری کی غرض سے خریدنے والے شہری 1 لاکھ 45 ہزار اور 46 ہزار میں بھی سونا بک کروالیتے ہیں۔ اگلی صبح مارکیٹیں گزشتہ روز کے بجائے رات میں ہونے والی تجارت کے ریٹ پر کھلنے کے بعد کام شروع کرتی ہیں۔ جب تک درجنوں سٹے باز کروڑوں روپے بٹور چکے ہوتے ہیں۔ یہی مصنوعی خریدوفروخت مارکیٹ میں مخصوص لوگوں کی اجارہ داری قائم کر رہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر ماضی میں مرکزی صرافہ ایسوسی ایشن کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے اتار چڑھائو کی مناسبت سے ریٹ کھولے اور بند کئے جاتے تھے۔ تاہم صرف چند برسوں میں اس سٹہ باز گروپ نے اس قدر اجارہ داری قائم کرلی کہ سونے کی عالمی مارکیٹ کو ہی نظر انداز کر دیا گیا۔ وہاں ہونے والے اتار چڑھائو کے بجائے اپنے علیحدہ ریٹ کھولے اور بند کئے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ عرصہ میں عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی تھیں۔ جبکہ پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں ان ریٹ میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔
اس ضمن میں صرافہ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی ہارون چاند کا کہنا ہے کہ انہوں نے چیئرمین کے ساتھ مشورہ کرکے تمام گروپوں کے کرتا دھرتائوں اور تاجروں کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ اپنا قبلہ درست کرلیں۔ کیونکہ ملکی اداروں نے سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس سٹہ بازی کو کنٹرول کرنے کے لئے اب تک تاجروں سے متعدد میٹنگز بھی کرچکے ہیں۔