نواز طاہر:
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے سابق دست راست پنجاب کے سابق وزیر علیم خان اپنے ہی لیڈر کے زیر عتاب آگئے ہیں جو انہیں سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں اوراس ضمن میں پنجاب حکومت کو ہر ممکن اقدام کی ہدایت کی گئی ہے۔ تاہم مقدمات درج ہونے اور یکے بعد دیگر چھاپوں کے باوجود علیم خان تاحال گرفتار نہیں ہوسکے۔
واضح رہے کہ علیم خان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست کا آغاز کیا تھا اور صوبائی وزیر بنے تھے اور بعد میں پاکستان تحریک انصاف کے جھنڈے تلے آگئے تھے اور عمران خان کے اے ٹی ایم کہلاتے تھے۔ لیکن گزشتہ عام انتخابات میں وزیراعلیٰ کے انتخاب اور وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران دونوں میں فاصلے طویل ہوگئے اور قربت بھی نفرت میں بدل گئی۔ علیم خان کے دیگر ذرائع آمدنی کے ساتھ ساتھ ہائوسنگ اسکیمیں بھی مرکزی اور اہم کاروبار ہے، جس میں تضادات اور مسائل مختلف اوقات میں سامنے آتے رہے۔ مگر جب تک وہ پی ٹی آئی میں اختلاف رائے سے گریز کرتے رہے، تب تک ان کے مسائل کو مکمل تحفظ حاصل رہا۔
حال ہی میں علیم خان کے خلاف پنجاب حکومت نے قانونی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے اور مختلف ذرائع کے مطابق علیم خان کے پچاس سے زائد ملازمین اور ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے اٹھائیس ملازم صرف راوی ریور اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) کی طرف سے درج کروائے جائے مقدمہ میں گرفتار کئے گئے ہیں۔ روڈا اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے درج کرائے جانے والے دو مقدمات میں علیم خان اور ان کے دست راست پنجاب اسمبلی کے سابق رکن شعیب صدیقی کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ ایک سو نو کے تحت شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب کے وزیر صنعت میاں اسلم اقبال نے بھی چھ مقدمات درج کئے جانے کی تصدیق کی ہے اور مزید سخت کارروائی عمل میں لائے جانے کاعندیہ دیا ہے۔ یاد رہے کہ میاں اسلم قبال اور علیم خان دونوں ہی جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان کے حکم پر میاں اسلم اقبال اور سابق مشیر وزیراعلیٰ حسان خاور خاص طور پر علیم خان کی گرفتاری کے لئے متحرک ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی بھی علیم خان کے مخالف ہیں لیکن ان میں عمران خان جیسی شدت دکھائی نہیں دیتی۔
ذرائع نے بتایا کہ علیم خان نے اپنی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے حوالے سے کچھ مسائل بزدار حکومت کے دوران حل کرلئے تھے۔ ان ذرائع کے مطابق علیم خان نے اپنی رہائشی اسکیم بیس فیصد کی شرح کے تحت روڈا کے ساتھ ایڈجسٹ کرلی تھی، جس کے بعد علیم خان کو روڈا کی طرف سے پلاننگ پرمیشن لیٹر بھی جاری کردیا گیا تھا۔ ان ذرائع کے مطابق زمین کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد رہائشی اسکیم میں کوئی گھپلا اور غیر قانونی کام نہیں رہا تھا۔ لیکن سیاسی حالات کی تبدیلی کے بعد انہیں زیر عتاب لایا گیا ہے۔ اس کے برعکس روڈا کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ علیم خان کی رہائشی اسکیم کے ساتھ نہ تو کوئی ایڈجسٹمنٹ کی گئی اور نہ ہی پلاننگ پرمیشن لیٹر جاری کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق روڈا کی طرف سے پرمیشن لیٹر مبینہ طور پر جاری کرنے کے بعد واپس لے لیا گیا ہے اور یہ تمام کارروائی ابہام رکھتی ہے۔
دوسری جانب روڈا کے ترجمان شیر افضل بٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ علیم خان کی رہائشی اسکیم کو سرے سے ہی پرمیشن لیٹر جاری نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق موضع رکھ جوگی میں موجود روڈا کی اراضی پر علیم خان زبردستی قابض ہیں، انہیں قانون اور ضابطے کے تحت متعدد نوٹس جاری کئے گئے مگر ان پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ اور جب قانون کے تحت یہ اراضی واگزار کروانے کے لئے عملہ موقع پر پہنچا تو علیم خان کے ملازمین نے سرکاری عملے پر حملہ کردیا اور انہیں زخمی کردیا جن میں متعدد ابھی بھی زیر علاج ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس مقدمہ کے علاوہ ایک مقدمہ اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے بھی درج کروایا گیا ہے اور ان مقدمات میں اٹھائیس افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جو دوروز کے جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس اراضی کے حوالے سے علیم خان نے عدالت سے جو حکم امتناعی لے رکھا ہے، اس کی سماعت بھی 13 اکتوبر کو ہوگی۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے وضاحت کی کہ علیم خان اور شعیب صدیقی ان مقدمات میں دفعہ ایک سو نو کے تحت بطور نامعلوم ملزم نامزد ہیں۔
اس کے برعکس ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ علیم خان کہیں بھی روپوش نہیں ہوئے اور اس تمام کارروائی کو سیاسی انتقامی کارروائی سمجھتے ہوئے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ علیم خان کے خلاف قانونی کارروائی میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کے رویے میں عمران خان جیسی شدت نہیں ہے اور وہ قانونی کارروائی قانون ہی کے اندر رہ کر کرنے کے حق میں ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے کچھ عہدیدار بھی بھی اپنے لئے علیم خان کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ عمران کی طرح ان کا بھی خیال ہے کہ ابھی بھی پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے ممکنہ حل میں علیم خان اور جہانگیر ترین اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز بھی دوٹوک الفاظ میں واضح کرچکی ہیں کہ علیم خان کو ٹارگٹ بنایا گیا ہے اور انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور پنجاب اسمبلی کے رکن خواجہ عمران نذیر کا کہنا ہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جب معاملہ عدالت میں ہے تو اپنے انتقام کی آگ کو قانون پر حاوی نہیں کرنا چاہیے۔
’’امت‘‘ نے اس معاملے پر موقف لینے کے لیے علیم خان سے رابطہ کرنے کی بار ہا کوششیں کیں۔ لیکن ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔