جامعہ کراچی کی انتظامیہ کروڑوں مالیت کی8نئی بسیں روٹ پر لانے میں ناکام

کراچی(امت نیوز) جامعہ کراچی کی انتظامیہ 8 نئی بسیں 7 ماہ گرزنے کے کے باوجود روٹس پر چلانے میں ناکام رہی، 2017 میں ان بسوں کی رقم ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے وصول کی گئی تھی۔
گندھارا موٹرز سے خریدی گئی بسوں کی 7 ماہ گزرنے کے باوجود ایکسائز رجسٹریشن اور انشورنس نہیں کرائی جاسکی۔
جامعہ کراچی میں 40 ہزار سے زائد طلبا و طالبات کے لیئے صرف 22 بسیں ہیں جنہیں شہر کے مختلف روٹس پر چلایا جاریا ہے ، جامعہ کراچی میں کم از کم 100 سے زائد بسیں ہوں تو طلبا و طالبات کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کچھ نہ کچھ حل ہوسکتا ہے تاہم انتظامی غفلت کی وجہ سے ہزاروں طلبا و طالبات ٹرانسپورٹ کے مسائل سے دوچار ہیں۔
جو طلبا و طالبات یونیورسٹی کے پوائنٹس پر نہیں جا پاتے، انہیں یومیہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جس میں زیادہ مسائل طالبات کے ہیں ، پرانی بسوں میں حد سے زیادہ طلبا کے سوار ہونے پر طالبات کو داخلی دروازے پر لٹکتا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ بعض بسوں میں 50 اور بعض میں 60 نشستیں ہونے کے باوجود ڈیڑھ سو سے پونے دو سو طلبا و طالبات سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب جامعہ کراچی نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے بسوں کی مد میں رقوم 2017 میں حاصل کی تھیں اور نئی بسوں کی خریدای کا عمل مارچ 2022 میں مکمل ہوا اور سب سے کم ریٹ پر گندھارا موٹرز سے اسوزو کمپنی کی 8 نئی بسیں خرید لی گئیں۔
یہ بسیں 9 کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد میں خریدی گئیں، تاہم ایچ ای سی سے گرانٹ کے وقت ایک بس کی قیمت 84 لاکھ تھی جسے تاخیر کے باعث ایک کروڑ 17 لاکھ روپے میں خریدا گیا۔
یہ بسیں ایک ماہ میں رجسٹریشن اور انشورنس کا عمل مکمل کرنے کے بعد روٹس پر چلائی جاسکتی تھیں تاہم 7 ماہ گزرنے کے باوجود مذکورہ بسوں کی رجسٹریشن اور انشورنس کا عمل مکمل نہ ہوسکا۔
جامعہ کراچی کے ٹرانسپورٹ انچارج ڈاکٹر قدیر محمد علی نے ’امت‘ کو بتایا کہ بسوں کی آمد کے ساتھ ہی رجسٹریشن اور انشورنس کے معاملات کے لیے دستاویزات تیار کرکے شعبہ فنانس کو بھیج دی گئی تھیں، ہم نے نجی انشورنس کمپنی سے رابطہ بھی کرلیا تھا جن سے ہمیں ایک اعشاریہ کچھ فیصد پر انشورنس مل رہی تھی لیکن ہمیں پابند کیا گیا کہ سندھ انشورنس کمپنی سے ہی انشورنس کرانا ہوگی۔
سندھ انشورنس سے بات کی تو وہ 6 اعشاریہ کچھ فیصد پر انشورنس دینے پر تیار تھے، اب معاملہ وائس چانسلر کے پاس بھیجا گیا ہے کہ سندھ انشورنس سے ریٹ میں کمی کرانے کے بعد معاملے کو حل کردیں ، اسی طرح رجسٹریشن کیلئے ایکسائز کو تقریباً 30 لاکھ روپے کی ادائیگی کرنا ہے لیکن شعبہ فنانس اس مد میں رقم جاری کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دونوں عمل مکمل ہونے پر ہی بسیں روٹ پر چلائی جاسکتی ہیں، نئی بسوں کو انشورنس کے بغیر روٹ پر نکالنے سے کوئی حادثہ پیش آیا تو کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیوں کا حساب کون دے گا؟