پکا ہاتھ ڈالنے کے لیے اہم فائلیں تیار ہو رہی ہیں تاکہ فوری ضمانت ممکن نہ ہوسکے-فائل فوٹو
 پکا ہاتھ ڈالنے کے لیے اہم فائلیں تیار ہو رہی ہیں تاکہ فوری ضمانت ممکن نہ ہوسکے-فائل فوٹو

عمران خان کے ساتھ چوہے بلی کا حکومتی کھیل

امت رپورٹ:
وفاقی حکومت نے فی الحال عمران خان کو صرف ڈرانے دھمکانے کی ایک طے شدہ حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو دانستہ گرفتار نہیں کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب لندن میں مقیم نون لیگ کے قائد نواز شریف نے پارٹی قیادت کو ہدایت کی ہے کہ سائفر ایشو کسی صورت پس منظر میں نہیں جانا چاہئے۔ لہٰذا اس ایشو کو ہر فورم پر بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے۔
واضح رہے کہ پچھلے کئی ماہ سے عمران خان کی گرفتاری کو لے کر حکومت چوہے بلی کا کھیل، کھیل رہی ہے۔ اس پر مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے جب ’’امت‘‘ نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ایک سے زائد ذرائع سے آف دی ریکارڈ بات کی تو معلوم ہوا کہ عمران خان کو ڈھیل دینے کے پیچھے کوئی غیر سیاسی قوت کارفرما نہیں ہے۔ بلکہ خود وفاقی حکومت اور اس کے اتحادیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عمران خان کی فوری گرفتاری سے حکومت کو سیاسی نقصان اور پی ٹی آئی کا سیاسی فائدہ ہوگا۔ خاص طورپرپیپلز پارٹی اس موقع پرعمران خان کی گرفتاری کو دانش مندی نہیں سمجھتی۔ اب بڑی حد تک اس نے اپنے اس موقف پرنون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کو بھی قائل کرلیا ہے۔

ذرائع کے بقول اگرچہ مریم نواز اور میاں جاوید لطیف سمیت نواز شریف گروپ سے جوڑے جانے والے رہنمائوں کا خیال ہے کہ عمران خان کو مزید ڈھیل دینے کے بجائے گرفتار کرلینا چاہئے۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے رہنمائوں کی اکثریت اس معاملے پر پیپلز پارٹی کے موقف کو درست سمجھتی ہے۔ حتیٰ کہ جے یو آئی (ف) بھی کسی حد تک اب اس سے اتفاق کر رہی ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد اگر انہیں فوری ضمانت مل جاتی ہے تو اس سے الٹا حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔ حالانکہ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کئی بار میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے براہ راست وزیراعظم شہباز شریف سے بھی شکوہ کیا ہے کہ اس قدر مقدمات کے باوجود عمران خان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جارہی۔
ذرائع نے کچھ عرصہ پہلے اس حوالے سے چلنے والی خبروں کی اگرچہ تردید کی۔ جن میں کہا گیا تھا کہ ایک بار عمران خان کی یقینی گرفتاری کا فیصلہ آصف زرداری کے کہنے پر ترک کر دیا گیا تھا۔ تاہم یہ تصدیق ضرور کی کہ اپوزیشن کے اجلاسوں میں جب بھی عمران خان کی گرفتاری کا معاملہ زیر بحث آیا تو اس پر پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا موقف نرم رہا ہے۔ ذرائع نے اس سلسلے میں سندھ میں تحریک انصاف کے خلاف پیپلز پارٹی کی جانب سے ہلکا ہاتھ رکھنے کا حوالہ بھی دیا۔ اور کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو آئے روز برا بھلا کہا جاتا ہے۔ لیکن صوبہ سندھ میں حکومت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی اس کا ردعمل نہیں دے رہی۔ ایک حلیم عادل شیخ پر بھی اس بھونڈے طریقے سے ہاتھ ڈالا گیا کہ اس سے الٹا بدنامی حصے میں آئی۔ حالانکہ حلیم عادل شیخ کے بارے میں صوبائی حکومت کے پاس بے انتہا قانونی مواد موجود ہے۔ اس کے باوجود ’’پکا ہاتھ‘‘ نہیں ڈالا جارہا۔
ذرائع نے بتایا کہ اس وقت اتحادی حکومت کی طے شدہ پالیسی یہ ہے کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کے بجائے فی الحال صرف ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ کیونکہ حکومت میں شامل تقریباً تمام پارٹیوں کا اس پر اتفاق ہے کہ باہر رہ کر عمران خان جس طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ روز جلسے کر رہے ہیں اور بار بار ریڈ لائنز عبور کر رہے ہیں۔ اس سے خود وہ اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اور یہ چیز حکومت کے حق میں جارہی ہے۔ ذرائع کے بقول جس طرح حواس باختہ عمران خان خاتون جج سے معافی مانگنے پہنچ گئے اور اس کے فوری بعد ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے۔ اس سے بچنے کے لئے انہیں ہائیکورٹ کی طرف بھاگنا پڑا۔ انہیں جیل میں ڈال دیا گیا تو یہ سلسلے بند ہو جائیں گے۔ لہٰذا فی الحال حکومت انہیں دوڑا دوڑا کر تھکا رہی ہے۔ وقت آنے پر گرفتاری بھی ہوگی۔

ذرائع نے بتایا کہ اتحادی حکومت کی قیادت کے نزدیک عمران خان کی دو عملی بھی ان کی اس مقبولیت کو اب کم کر رہی ہے۔ جو انہیں تحریک عدم اعتماد کے فوری بعد ملی تھی۔ مثلاً خاتون جج کے کیس میں اتوار کے روز ان کے لئے خصوصی طور پر عدالت لگاکر حفاظتی ضمانت دی گئی۔ اسی طرح توہین عدالت کیس میں انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ سے ریلیف الگ ملا۔ یہ وہی ہائیکورٹ ہے۔ جس نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو بری کیا تو عمران خان نے جلسے میں اس فیصلے پر تنقید کی تھی۔ لیکن پہلے خاتون جج کے مقدمے میں ضمانت ملنے اور پھر توہین عدالت کے کیس میں ریلیف کے بعد عمران خان اب کہہ رہے ہیں کہ ’’عدالت نے بڑے زبردست فیصلے کئے‘‘۔ یعنی اس عدالت نے مریم نواز کو بری کیا تو غلط فیصلہ تھا اور عمران خان کو ریلیف ملا تو عدالت زبردست ہوگئی۔

پی ڈی ایم ذرائع کے مطابق حکومت اور اس کی اتحادی پارٹیوں کی قیادت سمجھتی ہے کہ اس طرح کے متضاد بیانات اور منفی رویے عمران خان کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو سنجیدہ طبقہ ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ وہ اب آہستہ آہستہ ان سے دور ہو رہا ہے۔ اتحادی حکومت کے خیال میں اس کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی شرکت بھی بتدریج کم ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس موقع پر اگر چیئرمین پی ٹی آئی کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، تو اس کا انہیں سیاسی فائدہ ہوگا اور گرتی مقبولیت دوبارہ بحال ہونی شروع ہوجائے گی۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کو وقتی ڈھیل دینے کی حکومتی حکمت عملی کا یہ مقصد قطعی نہیں ہے کہ انہیں گرفتار ہی نہیں کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کا اتفاق ہے کہ جب بھی عمران خان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ ہوا تو ’’پکا ہاتھ‘‘ ڈالا جائے گا۔ تاکہ ان کی فوری ضمانت ممکن نہ ہوسکے۔ ذرائع کا دعویٰ تھا کہ اس سلسلے میں بہت سی فائلیں تیار ہو رہی ہیں۔ کئی کیسز ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں گرفتاری لازمی درکار ہوتی ہے۔ تاہم ان فائلوں اور کیسز کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
ادھر نون لیگ کو ایک عرصے سے عمران خان کو کائونٹر کرنے کے لئے بیانیہ نہیں مل رہا تھا۔ اب یہ بیانیہ آڈیو سائفر لیک کی شکل میں میسر آگیا ہے۔ اس بیانیہ کو نون لیگ ملکی سالمیت کے خلاف سازش سے جوڑ کر آگے بڑھائے گی اور آئندہ جنرل الیکشن کی انتخابی مہم میں بھی استعمال کرے گی۔ نون لیگی قیادت سمجھتی ہے کہ جس طرح ایک جھوٹے خط کو عمران خان نے مخالف پارٹیوں کے ارکان کے خلاف غداری سے لنک کیا۔ بعد ازاں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کی ایک آڈیو سے عمران خان کی اس حکمت عملی کی تصدیق بھی ہوگئی۔ اس بیانیہ کے آگے نون لیگ ایک عرصے تک بے بس رہی۔ لیکن اب آڈیو لیک نے یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ غداری سے متعلق عمرانی بیانیہ کو کائونٹر کرنے کے لئے نون لیگ ملکی سالمیت کے خلاف سازش کے بیانیہ کو پروان چڑھائے۔ اس حکمت عملی پر عمل شروع ہوچکا ہے۔

نون لیگ کے اندرونی ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف سائفر کو لے کر ملکی سالمیت خطرے میں ڈالنے سے متعلق طاقتور بیانیہ کو گزرتے وقت کے ساتھ مضبوط کیا جائے گا۔ جبکہ پہلے ضمنی انتخابات اور بعد میں عام انتخابات کے دوران اسے انتخابی نعرہ بنایا جائے گا۔ جبکہ پچھلے کچھ عرصے میں پہلے قومی سلامتی کمیٹی اور وفاقی کابینہ کے اجلاسوں اور پھر ایک طویل پریس کانفرنس میں سائفر ایشو کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس ایشو کو زیادہ سے زیادہ ہائی لائٹ کرنے کی ہدایت لندن میں مقیم نواز شریف کی جانب سے بھی پارٹی رہنمائوں کو مل چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں اگلے چند ماہ ملکی سیاست پر سائفر سے جڑے معاملات کا غلبہ رہے گا۔ اس سلسلے میں نون لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے بھی طاقتورکمپین چلائی جائے گی۔ جبکہ پارلیمنٹ میں بھی اس ایشو کو بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ اگلے چند روز میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس معاملے پر خاصی گرما گرمی کا امکان ہے۔