نواز طاہر:
تحریکِ انصاف کی پنجاب حکومت میں اجتماعی آبرو ریزی کا شکار ہونے والی خاتون کی شنوائی نہ ہونے پر خاتون کو تھانے کے اندر ہی دھکے مارے گئے اور تشدد کیا گیا۔ جس سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے تھانے کے اندر ہی اپنے اوپر تیل چھڑک کر آگ لگالی تو پہلے پولیس نے اسے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ لیکن حالت غیر ہونے پر پولیس ہی کی گاڑی میں ڈال کر اسپتال منتقل کر دیا۔ معاملے کو چھپانے کیلئے اسی کیخلاف اقدامِ خودکشی کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔ متعلقہ پولیس ابھی تک یہ معاملہ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ ایس ایچ او کو لائن حاضر بھی کیا جاچکا ہے اور نیا ایس ایچ او اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے۔
حصولِ انصاف سے زندگی اور موت کی کشمکش کی کہانی اوچ شریف سے اپنے شوہر سے ناراض ہو کر احمد پور شرقیہ آنے والی شہناز کی ہے۔ جو اس وقت بھی نشتر اسپتال میں زیر علاج ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شہناز نے اپنی ساتھ اجتماعی زیادتی اور بیٹی کے اغوا کے مقدمے میں شنوائی کیلئے تھانہ احمد پور شرقیہ سے کئی بار رجوع کیا۔ مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی۔ بلکہ ملزم پارٹی سے مبینہ طور پر صلح کیلئے راضی کرنے کے لئے غلیظ کلمات کہے اور دھکے دیئے گئے۔
شوکت کالونی کی شہناز بی بی کے مطابق ہمسائی ملوکاں اور اس کے شوہر اور رشتہ داروں نے آٹھ اگست کوگھر میں زبردستی گھس کر اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی بیٹی کو بھی اغوا کرلیا۔ احمد پور شرقیہ کے ایس ایچ اور غلام محی الدین گجر اور منشی ( محرر) سمیت دیگر اہلکاروں نے تھانے میں ذلیل و خوار کیا۔ جبکہ حصولِ انصاف کے لئے آر پی ملتان اور ڈی پی اور بہالپور سے بھی رجوع کیا گیا لیکن کوئی داد رسی نہ ہوئی۔ جبکہ ملزم دندناتے پھرتے ہیں۔ تھانے کے اندر بھی اسے بے عزت کیا گیا تو اس نے اپنے اوپر تیل چھڑک لیا۔ شدید زخمی حالت نے شہناز نے بتایا کہ پولیس نے ملزموں کے ساتھ ساز باز کر رکھی ہے اور صلح کیلئے دبائو ڈالتی ہے۔ میں نے احتجاج کیا اور انصاف مانگا ، بے عزتی کی زندگی سے مرجانا مناسب سمجھا۔ تاکہ اللہ کے پاس جا کر انصاف مانگوں، یہاں تو انصاف صرف اشرافیہ کو ملتا ہے۔ جب میں نے آگ لگائی تو بھی کمرے میں بند کردیا گیا، پھر پولیس ہی کی گاڑی میں ڈال دیا گیا۔ اسٹریچر پر پڑی شہناز کا کہنا تھا کہ ہم کچھ نہیں چاہتے ، میری بہن اور بیٹی کو بے عزت کیا گیا ہے۔ میرے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی ہے اور بیٹی اغوا کی گئی ہے، تو کیا انصاف مانگا میراحق نہیں ؟
تین کمسن بچے گود میں لئے شہناز کے شوہر محبوب احمد نے بتایا کہ ہم اوچ شریف میں بھی رہتے ہیں اور احمد پور شرقیہ میں بھی۔ میری بیوی شہناز مجھ سے ناراض ہو کر احمد پور شرقیہ آگئی تھی جہاں یہ سانحہ ہوا اور پولیس نے بھی ملزموں سے بڑھ کر ہمارے ساتھ زیادتی کی، ہم نے تو پولیس سے انصاف مانگا ہے۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ احمد پور شرقیہ کے محرر سے لیکر ایس ایچ اور اور ایس ایچ او سے لیکر اعلیٰ افسروں تک اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم مقامی لوگوں نے اس کی تصدیق کردی ہے کہ تھانے کے اندر آگ لگائی گئی تھی۔ یہ آگ ان لوگوں نے دیکھی تھی جو حوالات میں بند تین ملزموں کو کھانا فراہم کرنے گئے تھے۔ لیکن اس واقعے کو کئی روز گزر گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ وہ خاتون زندہ بچی یا نہیں۔
ابتدائی طورپراس واقعے کی سحت سے انکار کرتے ہوئے پولیس کے ترجمان اے ایس آئی عامر نذیر نے تصدیق ہے کہ شہناز کے خلاف اقدام خودکشی کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ جبکہ تھانہ احمد پور شرقیہ کے محرر جاوید محسن نے بتایا کہ وہ تو چند روز قبل ٹرانسفر ہوکر آیا ہے۔ اس کے پاس نہ تو اس واقعے کی اطلاع ہے اور نہ ہی کوئی رپورٹ اور ایف آئی آر درج ہے۔ محرر نے اقدامِ خودکشی کے اس مقدمے کے اندراج کی صحت سے بھی انکار کیا جس کی پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی۔ اسی تھانے کے ایس ایچ او سب انسپکٹر نوید نے بھی اس واقعے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب معاملات کے حالات کا ذکر کیا گیا تو سب انسپکٹر نوید نے بتایا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں، میں تو چند روز سے چھٹی پر ہوں۔ اس ضمن میں تفصیل اور وضاحت صرف پولیس ترجمان اسسٹنٹ سب انسپکٹر عامر نزیر کرسکتا۔
عامر نذیر کا کہنا ہے کہ خاتون کی اپنی مدعیت میں بھی مقدمات درج ہیں۔ ایس ایچ او کے مطابق جن لوگوں کیخلاف شہناز نے مقدمے درج کرائے ہیں وہ ضمانت پر ہیں جس کی تصدیق شہناز کے شوہر محبوب کے بیان سے بھی ہوتی ہے کہ ملزموں نے ضمانت کروا رکھی ہے۔ اس سے قبل تھانہ احمد پور شرقیہ سے ہی معلوم ہوا کہ ایس ایچ او ہی اس کی تحقیقات کررہا ہے ۔ جب ترجمان سے بات کی گئی تھی تو ترجمان نے بتایا کہ کئی روز پرانا واقعہ ہے۔ خاتون نے ڈراما کرنے کی کوشش کی تھی، جس دوران حقیقی طور پر آگ لگ گئی جس سے اس کا کچھ جسم جھلس گیا اور وہ اب صحت یاب ہو چکی ہے۔ اس کے خلاف اقدام خودکشی کی ایف آئی آر تو درج کی گئی ہے لیکن گرفتار نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی ایف آئی کے مندرجات بتائے جاسکتے ہیں۔ ترجمان نے خاتون کا نام بتانے سے بھی گریز کیا۔ احمد پور شرقیہ کے مقامی ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت یہاں غلام محی الدین ایس ایچ او تعینات تھا جسے اب لائن حاضر کیا جاچکا ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لائن حاضر کیوں کیا گیا ہے۔ کیونکہ شہناز، مقامی پولیس کے ساتھ ساتھ ڈی ایس پی، ایس پی، ڈی پی اور آر پی او کے خلاف بھی احتجاج کررہی تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اب ایس پی انویسٹی گیشن نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ جب ایس پی انویسٹی گیشن سے رابطہ کیا گیا تو آپریٹر نے بتایا کہ صاحب ایک میٹنگ کیلیے ملتان گئے ہوئے ہیں۔