سجاد عباسی
سیاست کو ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے اور ایک کامیاب سیاستدان وہی ہے جو وقت اور حالات کی بساط پر بروقت چالیں چلتا اور اپنے لئے امکانات بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر چال کامیاب ہو ۔کبھی جیت تو کبھی مات دیگر کھیلوں کی طرح سیاسی کھیل کا بھی حصہ ہے ۔ایک قدم آگے بڑھنے کے لئے کبھی دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے، مگر یہ سب کرنے کے لئے "لچک” کی اہمیت سے واقف ہونا ضروری ہے۔
عمران خان نے سیاسی میدان میں امکانات محدود کر دیے
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی بے لچک سیاست نے ان کے لئے سیاسی میدان میں امکانات محدود کر دیے ہیں اور وہ ترقی معکوس کا سفر کرتے کرتے الٹے قدموں سے چلتے ہوئے خود دیوار سے لگ گئے ہیں۔ اس کا دوش وہ کسی اور کو نہیں دے سکتے کہ جب سے سیاست کے بعد اقتدار کی دیوی ان پر مہربان ہوئی، راوی ان کے لئے ہر طرف چین ہی چین لکھتا رہا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عوامی سطح پر جو پذیرائی عمران خان کو حاصل ہوئی اور خاص طور پر نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی جانب متوجہ ہوئی، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔یہ وہ لوگ تھے جو اس سے پہلے انتخابی عمل کو یا تو ایک فضول مشق تصور کرتے تھے یا پھر دیگر سیاسی جماعتوں کے طرز سیاست سے مایوس ہو کر کسی نئے رہنما کی تلاش میں تھے مگر اب وہ بھی بزبان حال کہہ رہے ہیں کہ
"اب کسے رہنما کرے کوئی”
غیر معمولی پذیرائی کے بعد جس طرح عمران خان اقتدار میں آئے (یا لاۓ گئے) ،جس طرح دیدہ و نادیدہ قوتیں ان کے لیے دید و دل فرش راہ کئے رہیں۔اور جس طرح ہر کام ان کے لئے خودکار انداز میں ہوتا رہا یہ سہولت اور پذیرائی 75 سالہ ملکی تاریخ میں کسی اور حکمران یا جماعت کو نصیب نہ ہو سکی ۔ مگر بدقسمتی سے خان صاحب ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہے اور خود پسندی اور نرگسیت کے اس درجے پر فائز ہو گئے کہ خود کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھ بیٹھے ۔حکومت میں ہوتے ہوئے بھی سخت گیر اپوزیشن لیڈر بنے رہے ،الزام اور دشنام کو انہوں نے اپنا واحد سیاسی ہتھیار بنا لیا ۔حکمرانی کو بازیچہ اطفال سمجھتے ہوئے وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ 22 کروڑ لوگوں کا یہ ملک محض پرفریب نعروں ،دلنشین تقریروں اور سیاسی مخالفین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے نہیں چلنے والا۔یہ کام اپوزیشن کی حد تک تو چل سکتا ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد آپ کو ہر دن اور ہر گھنٹے کا حساب دینا پڑتا ہے ۔
عمران خان خوش قسمت تھے کہ انہیں ماضی کے حکمرانوں کی طرح کسی ان دیکھے حریف کا کوئی ڈر نہ تھا۔بلکہ جیسے پہلے کہا گیا ان کے لئے ہر طرف آسانیاں پیدا کی گئیں، اور ان کے راستے سے کانٹے چنے جاتے رہے مگر اس کے باوجود ان کا اقتدار ان کاندھوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ بن گیا جو انہیں خوشی خوشی اٹھائے پھر رہے تھے ۔پھر جب انہیں "عین قانونی اور آئینی طریقے” سے ایوان اقتدار سے رخصت کیا گیا تو وہ اس "بے وفائی” پر بپھر گئے۔ یہ اعلان وہ پہلے ہی کر چکے تھے کہ وزیراعظم ہاؤس سے بے دخلی کے بعد وہ خطرناک ہو جائیں گے ۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت کا سربراہ قومی اداروں اور شخصیات کے خلاف الزام تراشی اور بہتان طرازی میں تمام حدیں پار کر گیا۔ آرمی چیف جیسے حساس ترین عہدے پر تقرر کے اختیار کی بےجاضد میں آئین، قانون، اصول اور ضابطوں کی دھجیاں اڑا دیں اور ایک قانونی عمل کو ساری دنیا کے سامنے تماشا بنا کر رکھ دیا۔
عمران خان من مانی تقرری کے ذریعے اگلی مدت کے لئے اپنے اقتدار کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہتے تھے
اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ عمران خان من مانی تقرری کے ذریعے اگلی مدت کے لئے اپنے اقتدار کے خاکے میں رنگ بھرنا چاہتے تھے جس پر انہیں ٹکا سا جواب دے دیا گیا اور یہ باور کرادیا گیاکہ فیصلے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہ کر کیے جائیں گے ۔ اب آرمی چیف نے مقررہ وقت پر سبکدوشی کا غیر مبہم اعلان کرکے قیاس آرائیوں کی گرد بٹھا دی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب فوری انتخابات اور آرمی چیف کا تقرر التوا میں ڈالنے پر بضد عمران خان کے پاس کیا آپشن رہ گئے ہیں ؟ جیسا کہ شروع میں کہا گیا انہوں نے بے لچک رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے لیے سیاسی آپشن محدود کر دیے ہیں اور خود کو خود ہی دیوار سے لگا دیا ہے۔ لانگ مارچ کا اعلان تو وہ پہلے ہی کر چکے، سو جیسے تیسے انہیں یہ مارچ کرنا ہی پڑے گا جس سے نمٹنے کے لیے دوسری طرف بھی تیاریاں مکمل ہیں۔ایسے میں خدانخواستہ تصادم ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ ظاہر ہے کہ عمران خان ۔
جو مطالبات لے کر وہ احتجاج میں جارہے ہیں ان کے پورا نہ ہونے کے حوالے سے انہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا ہے لہٰذا اپنے حامیوں کو ایک بے نتیجہ تصادم کا ایندھن بنانے سے بہتر کیا یہ نہ ہوگا کہ خان صاحب دس گیارہ ماہ کے لیے خود کو اپوزیشن لیڈر تسلیم کر لیں اور سیاسی میدان میں حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے اگلے الیکشن میں اپنے حریفوں کو شکست دینے کا سامان کریں ۔
تحریک انصاف کے مزید10 مستعفی ارکان کے یوٹرن کو اس تناظر میں خوش آئند قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں واپسی کی صورت میں عمران خان کو فیس سیونگ دی جا سکتی ہے تو حکومت کو اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ مگر عمران خان کو بھی اس بات کا ادراک کر لینا چاہیے کہ بےلچک سیاست نے ان کے لیے امکانات محدود کر دیے ہیں۔ محبوب سے "محدود” ہونے میں تو پھر بھی چند برس لگ گئے ، مگر سیاسی راہیں مسدود اور گنجائش مفقود ہونے میں شاید زیادہ وقت نہ لگے ۔
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ۔