تدوین ۔سجاد عباسی
چوتھا حصہ
بات دور جا نکلی۔ ذکر تھا ہمارے بچپن کا۔ ہمارا بچپن ان بچوں کی طرح نہیں تھا جو خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کے پاس طرح طرح کے کھلونے ہوتے ہیں اور جو پڑھائی کے علاوہ کھیل کود اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ تاہم اسکول کے ہوم ورک کے علاوہ عرصہ تک شام کے وقت گاؤں اور اسکول کے ساتھیوں کے ساتھ قریب کے ایک چھوٹے سے میدان میں ہاکی کھیلنا اور کبھی کبھی قریب کے دریا سے مچھلی کا شکار ہمارا معمول رہا۔ ہمیں کھلونے تو میسر نہ تھے۔ پھر بھی جب کبھی تھوڑا بہت موقع ملتا تو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اپنے ہاتھوں سے کوئی نہ کوئی کھلونا تیار کرنے کے لیے منصوبے ضرور بناتے۔ ذہن ہمیشہ سے ٹیکنیکل تھا۔ ایسے دور دراز، پسماندہ علاقے میں جہاں جدید تیکنیکی دور کا سایہ بھی نہ پڑا تھا۔ بجلی تھی اور نہ ہی بجلی کے پنکھے یا بلب۔ لوگ ریڈیو، ٹیلی فون سے بھی واقف نہیں تھے۔ ٹیلی ویژن کا تو کوئی تصور بھی اس زمانے میں نہیں تھا۔ مگر ہمارا ذہن اپنے ماحول و معاشرہ سے بلکل جدا۔ اپنے خیالی سوچ بچار سے نئی نئی چیزیں تیار کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔
ہمارے علاقے میں ایک دریا تھا۔ جسے ’’نالہ بان‘‘ کہتے تھے۔ وہاں مختلف مقامات پر پن چکیاں تھیں۔ جنہیں مقامی زبان میں ’’گھراٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ گھراٹ ہمارے دیہاتوں کی آٹا پیسنے کی ایک بڑی ضرورت پوری کرتے تھے اور اب بھی موجود ہیں۔ اس لئے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں مکئی اور گندم پسوانے کے لیے لوگ لاتے۔ اس کا معاوضہ روپے پیسے کے بجائے اجناس کی شکل میں لیا جاتا تھا اور فی من دو سیر مکئی یا گندم کا آٹا معاوضہ کے طور پر لیا جاتا تھا۔ آج کل کیا صورت ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی بھی ایک پن چکی تھی۔ جس سے ان کو معقول آمدنی ہوجاتی تھی۔ وہ اس پن چکی سے جڑے ہوئے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک جان لیوا واقعہ کا ذکر بھی کرتے تھے۔ جو کچھ اس طرح ہے کہ ان کو اس پن چکی کیلئے پانی کی روک کے کناروں کو مضبوط کرنے کے دوران ان کے دائیں پاؤں کو ایک زہریلے اژدھے نے نگل لیا تھا۔ ان کے بقول اژدھے نے ان کے پاؤں میں اپنے دانت گاڑھ کر اپنا زہر اس میں داخل کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے جوگیوں کے بتائے ہوئے ایک ٹوٹکے پر عمل کرتے ہوئے سانپ سے پہلے مٹی کو نگل لیا تھا اور اس کے بعد سانپ کو مار دیا تھا۔ جس سے اللہ کے خصوصی کرم کی وجہ سے ان کی جان تو بچ گئی تھی۔ مگر اس کے بعد وہ بے ہوش ہو گئے تھے اور ان کے رشتہ دار پڑوسیوں نے ان کو اٹھوا کر چارپائی پر کوئی پندرہ بیس کلو میٹر دور ان کے گھر پہنچایا تھا۔ علاقے کا ایک مشہور جوگی ان کا مہینوں علاج کرتا رہا اور پھر ان کو اللہ تعالی نے نئی زندگی دی۔ یہ واقعہ ہماری پیدائش کے ایک سال بعد کا ہے۔ بات ہو رہی تھی میری کھلونا پن چکی کی۔ لیکن دوسرے واقعہ کی طرف جا نکلی۔ تاہم یہ واقعہ بیان کرنا بھی ضروری تھا۔
والد صاحب کے اس پس منظرکی وجہ سے ہمیں پن چکی سے ایک والہانہ لگاؤ ہوگیا اور سوچنے لگے کہ اسی طرز کا ایک کھلونا گھراٹ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ دو چار دن کی سوچ بچار کے بعد اس کا خاکہ بن گیا اور ایک ہفتے کے اندر ہم نے ایک کھلونا پن چکی کا پورا ڈھانچہ خود ہی ڈیزائن کیا اور اس کے سارے کل پرزے اور پتھر کے دو پاٹ بھی تیار کرلئے۔ ان کل پرزوں میں اونچائی سے پوری قوت سے پانی کو گڑھ کے پنکھوں پر گرانے والی نال، آج کل کے بجلی کے پنکھوں کی طرز کے زیادہ پروں والا گڑھ، گڑھ کے پیندے کو ایک رفتار سے چلانے والی لوہے کی کولی اور اچھے سے دو پتھروں کی احتیاط سے تراش خراش سے دو پاٹ اور اوپر والے پاٹ پر دستہ شامل تھا۔ جب ہم نے ان کل پرزوں کو ان کی جگہوں پر فکس کیا تو ایک چلتی پھرتی (پورٹ ایبل) کھلونا پن چکی تیار ہو گئی۔ اس کامیاب تجربے پر ہم بہت ہی خوش تھے اور اس کا ذکر بڑے فخر سے گھر والوں اور اسکول کے دوستوں سے کیا۔ ہم چند دوست قریبی دریا میں جس مقام پر جہاں چاہتے اسے لگالیتے اور اجناس کی جگہ ریت ڈال کر پیستے۔ اس کھلونا پن چکی کا چرچا دور دور تک پھیل گیا۔ یہ کھیل اس قدر کشش رکھتا تھا کہ لوگ خاص کر اس بچے یعنی ہم سے ملنے اور کھلونے کو دیکھنے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے آتے۔ وہ حیران ہوتے کہ ایک بچہ اتنی چھوٹی عمر میں اس قدر مہارت سے پن چکی کے سارے کل پرزے بنانے میں کیسے کامیاب ہوا۔ وہ ہمیں پن چکی کا پورا ڈھانچہ کامیابی سے بنانے پر شاباش بھی دیتے اور ان میں سے بعض کبھی آنہ دو آنہ انعام کے طو پر بھی دے دیتے۔
اس کامیاب تجربے سے ہمارا حوصلہ بڑھا اور ہم نے ایک اور منصوبے پر کام شروع کر دیا۔ جو لکڑی کی ایک دو نالی بندوق تھی۔ اس کا خیال اس لئے آیا کہ غربت کے باوجود ہمارے اور ہمارے تمام رشتہ داروں کے گھروں میں شکاری بندوقیں رکھنے اور شکار کرنے کا شوق تھا۔ ہر گھر میں بارود سے چلنے والی دیسی ’’تپسی تے ٹھس کرسی‘‘ والی اور کارتوسی بندوقیں موجود تھیں۔ ہمارے والد، چچا اور دوسرے سارے رشتہ دار بہترین نشانہ باز شکاری تھے۔ ہمارے ایک چچا تو اڑتے پرندے کا شکار کرنے کی شہرت بھی رکھتے تھے۔ ہم نے جو بندوق ڈیزائن کی۔ اس کا پورا نظام عام بندوق کی طرح تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اسٹیل کی دو نالی بیرل کی جگہ لکڑی کی دو نالی بیرل بنائی گئی تھی اور اس کے ٹریگر کے اوپر والے حصے پر ایک غلیل کو اس طرح فکس کیا گیا تھا کہ بندوق کے اگلے سرے پر غلیل کے دونوں ربر کے سروں کو مضبوطی سے باندھ دیا گیا تھا کہ اگر اسے کھینچ کر ٹریگر (لبلبی) کے اوپر فکس کیا جاتا اور کنکر کو غلیل میں پتھر کی گولی کے طور پر رکھ کر ٹریگر دبایا جاتا تو وہ گولی کی طرح نشانے پر جا لگتا۔ اس کے ذریعے پرندوں کا شکار بھی کیا جا سکتا تھا۔ اور ہم نے اس کو استعمال کرتے ہوئے فاختہ سمیت متعدد بار پرندوں کا شکار کیا بھی تھا۔ لکڑی کی اس بندوق کا بھی کافی چرچا ہوا اور ہماری اس کاوش کو بھی کافی پذیرائی ملی۔ ان سرگرمیوں کو دیکھ کر لوگ کہتے تھے کہ یہ بچہ بڑا ہوکر انجینئر بنے گا۔ لیکن اللہ تعالی نے قسمت میں صحافی بننا لکھ رکھا تھا۔ لیکن ظاہر ہے اس وقت اس کا علم کسی کو نہ تھا۔
ہمارا ایک اور شوق مچھلی کے شکارکا بھی تھا۔ جب کبھی موقع ملتا۔ قریبی دریا میں دوستوں کے ساتھ ڈور کانٹے کے ساتھ شکار کرتے۔ دریا میں زیادہ تر بام مچھلی ہوتی تھی۔ جو ہمارے کانٹے کا اکثر نوالہ بن جاتی۔ یوں تو مچھلی کے شکار کیلئے کوئی خاص موسم مقرر نہیں تھا۔ لیکن زیادہ تر لوگ گرمیوں کے موسم میں اس کا شکار کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ گرمیوں کے دوران شکار کے ساتھ شکاری دریا میں نہا بھی لیتے اور سکون محسوس کرتے تھے۔ اس موسم میں ہمارا بھی یہی معمول ہوتا کہ اسکول سے واپس آکر اکثر دریا پر چلے جاتے اور دو تین گھنٹے اپنا شوق پورا کرتے۔ پھر جب ضرورت کے مطابق مچھلیاں پکڑ لیتے تو واپس آجاتے۔ مچھلی کے شکار کا بہترین موقع شدید گرمیوں کا وہ وقت ہوتا تھا جب دریا میں پانی کم ہوتا اور مچھلیاں سکڑ کر ایک جگہ پانی میں جمع ہو جاتیں۔ جہاں سے ان کو پکڑنا آسان ہوتا۔ سردیوں کے زمانے بھی مچھلی کا شکار ہوتا تھا۔ لیکن وہ یا تو مچھیرے اپنے بڑے بڑے جال سے پکڑتے یا بڑے بڑے گہرے تالابوں میں بارود سے دھماکے کرکے یہ شکار کیا جاتا۔ جس سے مچھلیاں مر جاتیں اور شکاری تیر کر انہیں حسب توفیق اور ضرورت پکڑ لیتے۔
یہ دریائی کھیل ایک بار تو ہمیں بڑا مہنگا پڑا۔ ہوا یہ کہ ہمارے گاؤں کے مشرقی پہاڑی علاقوں میں شدید بارش ہوئی۔ جبکہ ہمارے یہاں موسم خشک ہی رہا۔ دریا پر ہم پن چکی کے کھیل میں اپنے ساتھی محمد افسر کے ساتھ مگن تھے کہ بارش کا سیلابی پانی طغیانی کی صورت میں اچانک تیزی کے ساتھ نمودار ہوا۔ ہم ابھی دریا ہی میں تھے کہ میرے بڑے بھائی الف دین نے اس بھیانک منظر کو دیکھ لیا۔ انہوں نے اس کی ہولناکی کو محسوس کرتے ہوئے دوڑ کر ہمیں بچانے کی کوشش کی اور اپنی گرفت میں لے کر دریا کے خطرناک پاٹ سے دور لے گئے اور پھر اچھی خاصی پٹائی بھی کردی۔ جو بعد میں ہمیں ہمیشہ یاد رہی اور ہم نے پھر ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ بارش کے موسم میں جب دریا میں اچانک طغیانی آنے کا خدشہ ہو تو وہاں نہ کھیلیں۔
آپ کے لئے یہ بات شاہد حیرت کا باعث ہو۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ ہم بچپن میں باقاعدہ عالم دین بنتے بنتے رہ گئے۔ اگر اس کوشش میں ہم کامیاب ہو جاتے تو ہم اس وقت صحافی کے بجائے ایک عالم دین ہوتے۔ اس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ جس کو سنانے میں ہمیں بھی اور پڑھنے میں آپ کو بھی بڑا لطف محسوس ہوگا۔ ہمارا دین کی طرف رجحان، گھریلو ماحول خاص طور پر والد صاحب کے پابند صوم و صلوٰۃ ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی تھا۔ ہم بچپن میں والد صاحب کے ساتھ ہی سوتے تھے۔ وہ تہجد گزار تھے۔ وہ جب تہجد کیلئے رات کے آخری پہر اٹھتے تو ہم بھی والد صاحب کے ساتھ ہی اٹھ جا تے اور ان کو نماز پڑھتے دیکھتے۔ یہ ان کی خاموش تربیت تھی۔ جس نے ہمارے لئے دین پر عمل کرنے میں آسانی پیدا کی۔ مجھے یاد نہیں کہ بچپن میں کب سے ہم نے روزے رکھنا شروع کیے اور یہ بھی یاد نہیں کہ کبھی زندگی میں کوئی روزہ قضا بھی ہوا ہو۔ اس کو ہم نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہی سمجھا ہے اور اس کا ہمیشہ شکریہ اداکرتے ہیں۔
اس دینی ماحول کی وجہ سے اسکول میں کبھی کبھی یہ خیال بھی آتا کہ کسی مدرسے میں داخل ہوکر دینی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ اس کا ذکر ہم دو چار قریبی دوست آپس میں بھی کرتے اور اکثر دینی مدرسہ میں پڑھنے کی باتیں ہوتیں۔ ان دوستوں میں ہمارے گاؤں کے دین محمد اور دل محمد شامل تھے۔ بالآخر ہم تین دوستوں نے بڑی رازداری سے پروگرام بنایا کہ ہم اسکول چھوڑ کر پنجاب میں کسی بڑے اور اچھے دارالعلوم میں داخل ہوں اور دینی تعلیم حاصل کرکے عالم دین بنیں۔ خفیہ پروگرام کے مطابق ہم تینوں ایک دن صبح سویرے مقررہ وقت پر ایک جگہ جمع ہوئے اور گھر والوں کو بتائے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہماری منزل لائل پور موجودہ فیصل آباد کا مشہور دارالعلوم جامعہ ر ضویہ تھی۔ جس کے مہتمم مولانا سردار احمد مرحوم تھے۔ جو صاحبزادہ فضل کریم کے والد اور مولانا حامد رضا کے دادا تھے۔ اس مدرسے کے بارے میں ہم نے پہلے سے سن رکھا تھا۔ ہم تینوں دوست پیدل چل کر کھوئی رٹہ سے اسی دن میرپور پہنچ گئے۔ جس کا فاصلہ آج کل کی پختہ سڑک سے 53 میل ہے۔ رات کو وہاں قیام کیا اور دوسرے دن پیدل ہی 17 میل کا فاصلہ طے کر کے شکریلا پہنچے۔ پیر آف شکریلا شریف سے ہم نہ صرف واقف تھے بلکہ ان کے معتقد بھی تھے۔ ایک دو روز ہمارا قیام شکریلا شریف میں رہا اور وہاں سے اپر جہلم نہر کے کنارے کنارے سڑک پر چلتے چلتے شام کو سرائے عالمگیر پہنچے۔ جو وہاں سے 10 میل دور ہے اور وہاں سے بذریعہ ریل لائل پور پہنچے۔ دارالعلوم جاکر پتا چلا کہ داخلے مکمل ہوچکے ہیں۔ اب داخلہ نہیں ہوسکتا۔ وہیں سے ہمیں بتایا گیاکہ اگر آپ سانگلہ ہل ضلع شیخو پورہ چلے جائیں تو وہاں مولانا عنایت اللہ کے دارالعلوم میں داخلہ یقینی ہے۔
چنانچہ ہم وہاں سے سفارشی چھٹی لے کر سانگلہ ہل کے لیے روانہ ہوگئے اور چند روز میں وہاں پہنچ گئے۔ انہیں دارالعلوم جامعہ رضویہ لائل پور کا خط دیا تو ہمارا داخلہ آسانی سے ہوگیا۔ اب ہم نے وہاں سے اپنے گھر والوں کو خط لکھ کر اطلاع دے دی کہ ہم بخیریت ہیں اور انہیں اپنا پتہ بھی دے دیا۔ جس پر گھر والوں کے خطوط آئے۔ ہمیں سخت ڈانٹ پلائی گئی تھی اور کہا گیا کہ فوراً گھر واپس آئیں اور اسکول میں دوبارہ داخلہ لیں۔ پھر بھی ہم تقریباً ایک ماہ تک دارالعلوم میں رہے۔ اس عرصے میں ہمیں کچھ زیادہ اچھا ماحول ملا اور نہ ہی اچھے تجربات حاصل ہوئے۔ ہمارا دل اچاٹ ہوگیا تھا اور ویسے بھی ہم گھر والوں سے دور رہ کر گھبرا گئے تھے۔ چنانچہ ہم نے واپس گھر جانے کا فیصلہ کیا اور ایک دن موقع پاکر وہاں سے نکل آئے اور واپسی کا سفر شروع کیا اور تقریباً دو ہفتوں بعد واپس گھر پہنچ گئے۔ جب ہم واپس اچانک اپنے گھر میں داخل ہوئے تو ہماری ماں نے فوراً اپنے سینے سے لگایا۔ پیار کیا اور کہا کہ اب تم کہیں نہیں جاؤ گے۔ اس طرح ہمارا عالم دین بننے کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ اور ہمیں پھر اسکول میں اسی کلاس میں داخل کرادیا گیا۔
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ہمارا بچپن نہایت غربت اور کسمپرسی کی حالت میں گزرا۔ اس وقت حالات ہی ایسے تھے کہ پورے آزاد کشمیر میں کم ہی لوگ آسودہ حال تھے۔ ان حالات میں بچوں کو اسکول میں داخل کرانے اور تعلیم دلوانے کا رجحان بھی کم تھا۔ دوسروں کی طرح ہمارے والدین اور خاندان کے لوگ بھی تعلیم سے کوسوں دور تھے۔ اس کے باوجود جب جہلم کے قریب چک جمال کے مہاجر کیمپ کے عارضی اسکول میں داخل کرایا گیا تو ہمارے ساتھ دوسرے بھائیوں کو بھی اسکول بھیجنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن انہوں نے چند دنوں کے اندر ہی اسکول جانے سے جان چھڑا لی۔ البتہ ہم بڑے شوق سے اسکول جانے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ کلاس کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ اسکول جانے اور ان کے ساتھ پڑھنے میں بھی دلی سکون محسوس ہونے لگا۔ جب ہم چک جمال سے واپس کھوئی رٹہ آئے اور دوسری جماعت میں داخل ہوئے تو پڑھائی کا ہمارا یہ شوق جنون میں تبدیل ہوگیا۔ اب گھر سے زیادہ اسکول میں مزا آنے لگا تھا۔ اس لئے طوفان آئے یا مون سون کی شدید بارشیں۔ گاؤں اور اسکول کے درمیان دریا میں سیلابی کیفیت ہو یا موسم کی کوئی اور سختی۔ اسکول سے کبھی بھی غیر حاضر نہ ہوئے۔ حالانکہ گھر اور محلے کے دوسرے بچے چھٹی کے بہانے تلاش کرتے رہتے تھے اور معمولی معمولی بہانے اور عذر بناکر اسکول سے چھٹی کر لیتے تھے۔ مگر ہمارے جنون کا عالم ہی کچھ اور تھا۔ جو ہمیں اسکول ہی میں تسکین دیتا تھا۔ اسکول جانے کے لیے ہمیں دریا پار کر کے جانا ہوتا تھا۔ جو ہمارے گاؤں اور اسکول کے درمیان تھا۔ مون سون کی شدید بارشوں کے موسم میں دریا سیلابی ریلے کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ لیکن ہم نے اس کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا تھا کہ ہم نے دریا کے دیہاڑی باغ کے بالکل نیچے سے موجودہ پل تک کے ہموار حصے کو منتخب کیا ہوا تھا۔ ہم اس کے کنارے پہنچتے۔ کتابیں اور کپڑے سر پر اس طرح مضبوطی سے باندھتے کہ وہ پانی سے گیلی ہونے سے بچی رہیں اور پھر دریا میں آہستہ آہستہ تیر کر دریا کے دوسری طرف اسکول والے کنارے سے باہر نکل آتے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دو بار ہم نے ایک دو دوسرے ساتھیوں کو بھی ان کی درخواست پر دریا پار کرانے کا خطرناک کام کیا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ ہم جب دریا تیر کر پار کرنے کے ارادے سے دریا کے کنارے پہنچتے تو دوسرے طلبہ ساتھی بھی ہم سے کہتے کہ انہیں بھی دریا پار کرائیں جو تیرنا نہیں جانتے تھے۔ ہم ان سے کہتے کہ وہ اپنی ذمہ داری پر ہمیں پکڑ کر دریا پار کر سکتے ہیں اور اگر ہمیں چھوڑ دیا اور ڈوب گئے یا ریلے میں بہہ گئے تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ شدید بارشوں کے موسم میں ہمارا یہ عام معمول تھا۔ ہم نے اسے کبھی بھی بڑا کارنامہ نہیں سمجھا۔ اب جب کبھی ہم اپنے گاؤں جاکر اسکول کے پاس دریا کے اس مقام کو دیکھتے ہیں جہاں سے تیر کر دریا پار کرتے تھے تو حیرت سے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ اور یقین نہیں آتا کہ اس زمانے میں ہم اس قدر خطرناک کام بھی کرتے تھے۔ یہ در اصل تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ ہی تھا۔ جو مجھ سے یہ خطرناک کام کروا لیتا تھا۔
ایک طرف تعلیم کے لئے جنون کا یہ عالم تھا تو دوسری جانب مزید تعلیم کے سلسلے میں رہنمائی کرنے والا پورے خاندان میں کوئی نہ تھا۔ گھر والے تو تعلیم سے نابلد تھے ہی۔ مگر اسکول میں بھی کسی نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ آئندہ اعلیٰ تعلیم حاصل کیسے کی جائے گی؟ اسے آپ اسکول کے اساتذہ کی غفلت یا کم علمی قرار دے سکتے ہیں۔ ہماری دانست میں اس کی ایک وجہ یہ رہی ہوگی کہ اس زمانے کے ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے اساتذہ کے نزدیک میٹرک ہی اعلیٰ تعلیم تھی اور ان کو یہ خیال کم ہی ہوگا کہ ان کے طلبہ میں سے کوئی میٹرک سے آگے بھی پڑھے گا۔ یوں تو ہمیں میٹرک کے تمام مضامین میں دلچسپی تھی اور ان میں بھی بہت اچھے نمبر آتے تھے۔ لیکن حساب اور سائنس کے مضامین سے ہمیں خصوصی لگاؤ تھا اور ہم ان تین چار طلبا میں سے ایک تھے۔ جن کو حساب میں خصوصی مہارت تھی۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہیڈ ماسٹر اور حساب کے ٹیچر حاجی الف دین ہم سے بہت خوش تھے۔ ریاضی میں ہمیشہ /100 99نمبر آتے تھے۔ یہی حال انگریزی اور ڈرائنگ کے مضامین کا بھی تھا۔ یہ سب کچھ تھا۔ لیکن یہ علم نہیں تھا کہ انجینئر اور ڈاکٹر بننے کا کیا طریقہ کار ہے اور میٹرک کے بعد کیا کرنا ہوگا؟ خود معلوم اس لئے نہیں کیا کہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کا ارادہ تھا اور نہ مالی حالات اس کی اجازت دیتے تھے کہ آگے مزید پڑھا جائے۔ آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ہمیں کراچی آکر بھی یہ پتہ نہیں تھا کہ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ کیا ہوتا ہے اور ڈاکٹر اور انجینئر کیسے بنتے ہیں؟ یہی وجہ تھی کہ ہم نے 1963ء میں سائنس میں اچھے نمبر ہونے کے باوجود محض علم نہ ہونے کی وجہ سے اردو سائنس کالج کے بجائے اس کی آرٹس فیکلٹی میں داخلہ لیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭