عالمی برادی مودی حکومت کے مظالم کا نوٹس لے- محمد رفیق ڈار.فائل فوٹو
 عالمی برادی مودی حکومت کے مظالم کا نوٹس لے- محمد رفیق ڈار.فائل فوٹو

یاسین ملک کو تہاڑ جیل میں زہر دیے جانے کا خدشہ

احمد خلیل جازم:
جموں وکشمیرلبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک جو ان دنوں بھارت کی تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، ان کی جیل میں طبیعت سخت ناساز ہے۔ یاسین ملک کو جیل میں مارنے کی سازش کی جارہی ہے۔ یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ انہیں جیل میں زہر دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ جیل میں ان سے ناروا سلوک روا رکھا گیاہے اور انہوں نے اس کے خلاف جہاں بھوک ہڑتا کر رکھی ہے، وہیں اپنا وکیل بھی ہٹا لیا ہے کہ جب مودی سرکار نے طے کرلیا ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہونی تو وکیل کھڑا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اس حوالے سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان اور یاسین ملک کے نمائندہ خصوصی محمد رفیق ڈار نے ’’ امت ‘‘ کو بتایا کہ ’’ہمارے پاس یہ اطلاعات ہیں کہ یاسین ملک کی طبیعت سخت ناساز ہے بلکہ گزشتہ دو تین ماہ سے مودی سرکار نے فون پر یاسین ملک سے اہل خانہ و دوست احباب کی بات بھی نہیں کرائی۔ کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ تہاڑ جیل میں جب باالخصوص جب انہیں من گھڑت فرضی مقدمات کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، اس وقت سے ان کے اہل خانہ کوان کی صحت کے حوالے سے تشویش ہے۔ اب جموں میں ان کے خلاف جو پرانے کیسز تھے، ان میں بھی مودی سرکار کی ایما پر عدالتیں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ کشمیری حریت لیڈر شپ کے ساتھ اس ظلم و زیادتی پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

یاسین ملک چونکہ ایک مقبول ترین کشمیری حریت رہنما ہیں، اس لیے مودی سرکار ان سے خوفزدہ ہے۔ وہ نہ صرف مختلف سیاسی جماعتوں سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ملتے رہے۔ بلکہ وہ متعدد بھارتی وزرائے اعظم سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سفارتی سطح پر بین الاقوامی برادری کے لیڈران سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ملاقاتیں کرتے رہے۔ وہ امریکہ گئے ہیں، برطانیہ گئے، ان کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور فارن آفس کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ وہاں کے پالیسی سازوں سے ان کے مکالمے ہوئے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں ان کے خطاب اور سوال و جواب کے سیشن رہے ہیں۔ اس کے باوجودہ بزدل بھارتی حکومت نے ان پر من گھڑت اور فرضی مقدمات دائر کیے جو حیران کن بات ہے۔ کشمیری قوم کو اس بات پر افسوسناک حیرت اور تشویش ہے کہ بین الاقوامی برادری مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب یاسین ملک کے چھتیس برس سے زائد پرانے کیسوں کو دوبارہ ری اوپن کرکے جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، مودی سرکار انہیں عمر قید سے بڑی سزا دینے پر تلی ہے۔

بھارتی عدالتی نظام کی نااصافی کی حد تو یہ ہے کہ انہیں عدالت میں بھی پیش نہیں کیا جارہا۔ بھارتی جوڈیشری کی یہ ناانصافی اور جانب داری دیکھ کر یاسین ملک صاحب نے بطور احتجاج اپنا وکیل بھی ہٹا لیا ہے۔ کیونکہ بھارتی سرکار وہی کچھ کرنا چاہتی ہے، جو انہوں نے مائینڈ بنایا ہوا ہے۔ ابھی تک جتنی بھی شنوائی ہوئی ہے، یاسین صاحب نے ایک ہی بات پر زور دیا کہ مجھے عدالت میں پیش کیا جائے۔ میں خود اپنا کیس لڑنا چاہتا ہوں، یہ جوجعلی گواہان لائے گئے ہیں ان سے جرح کرنا چاہتا ہوں۔جس طرح جیل میں ہی آن لائن ویڈیو لنک پر میری ہیرنگ کررہے ہیں، اس پر کسی گواہ کو میں سن سکتا ہوں نہ وہ میری کوئی بات سن پا رہے ہیں۔ یہ تو سیدھی سادھی ناانصافی ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک یاسین ملک کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اور یہ سب کچھ عالمی برادری کے سامنے ہے، ان کی خاموشی پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی؟ ہم تو بہت حیران ہیں، افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور اس خاموشی کو توڑنے کا بین الاقوامی برادی سے تمام کشمیری مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
خاص طور پر یاسین ملک کو کیوں زیادہ ٹارگٹ کیا گیا ہے؟ تو اس پر رفیق ڈار نے کہا کہ ’’دیکھیں کوئی ایک قومی لیڈر ہوتا ہے جو موومنٹ کو لیڈ کرتا ہے، وہی یاسین صاحب کررہے تھے۔ انہیں بھی اندازہ تھا کہ بھارت کو یہ بات ناگوار گزر رہی ہے۔ مودی متشدد حکومت اپنی ٹرم اینڈ کنڈیشن پر ان سے مکالمہ کرنا چاہتی تھی، جسے کشمیری لیڈر شپ نے مسترد کردیا۔ حریت لیڈران کا کہنا تھا کہ اگربات چیت کرنی ہے تو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی بات کریں۔ بھارتی آئین کے تحت تو اس کا کوئی حل نہیں نکلتا۔ اس کا حل یو این او کی تسلیم شدہ قراردادیں ہیں۔ حق خود ارادیت کا جو مسلمہ اصول ہے اس کے تحت حل نکالا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ریاست کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ اور بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ علاقہ ہے۔ بھارت جو اپنے آئین کے تحت مکالمہ کرنا چاہتاہے وہ اس کا حل نہیں ہے۔ اس مکالمے کا نہ صرف انکار کیا گیا، بلکہ حریت لیڈران نے اپنی تحریک جاری رکھی، بس یہی وجہ ہے یاسین ملک جیسے پرامن حریت لیڈر کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاگیا۔

مودی سرکار سمجھتی ہے کہ اگر یاسین ملک ان کے موقف کی تائید کرتے ہیں تو مسئلہ کشمیر کا ایشو ختم ہوجائے گا۔ یاسین صاحب کے پاس ہتھیار ہے اور نہ وہ دہشت گرد ہیں۔ بھارت کے پاس اور کوئی بہانہ نہیں تھا چنانچہ جھوٹے ، من گھڑت مقدمات کے تحت انہیں پابند سلاسل کردیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقبول ترین لیڈر کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمہ کے خلاف سب سے موثر آواز یاسین ملک کی ہوسکتی تھی، اس سے پہلے ہی مخصوص حریت لیڈرشپ اور خاص طور پر یاسین ملک کو گرفتار کیا گیا۔جموں وکشمیر لبرشن فرنٹ جس کے وہ چیئرمین ہیں۔ اس پر بھی بھارت میں پابندی عائد کی گئی۔ اس پر مستزاد بزدل بھارتی افواج کی تعداد بھی بڑھا کر دس لاکھ تک کرکے پوری ریاست کشمیر کو نرغے میں لے کر چھائونی میں تبدیل کردیا گیا۔ ہزاروں نوجوان کو گرفتارکیا گیا، ماورائے عدالت قتل کیے گئے۔ مظاہروں اور جلسے جلوسوں پرپابندی عاید کی گئی، چھ ماہ کرفیو نافذ کیا گیا، یہ خوف آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے تھا۔ کئی ایسے نوجوان گرفتار ہوئے جو تحریک آزادی کی سوشل میڈیا پر تشہیر کررہے تھے۔

‘‘ یاسین ملک کو جیل میں کیا خطرات ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ’’یاسین ملک کی والدہ تو کئی بار کہہ چکی ہیں کہ میرے بیٹے کو خاموش موت کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔ انہیں زہر بھی دیا جاسکتا ہے۔ یک طرفہ مقدمات چل رہے ہیں۔ ان کی اور ان کے وکیل کی کوئی بات ہی نہیں سنی جاتی۔ مودی حکومت جو ڈائریکشن دیتی ہے، جج اسی پر عمل کرتے ہیں۔ جس انداز میں جج یک طرفہ شنوائی کرکے انہیں عمر قید سزا چکے، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ یاسین ملک کو حکومت جان سے مارنے پر تلی ہے۔ ابھی تو قتل کے مقدمات بھی شروع کیے گئے ہیں، ان کے خلاف جھوٹے گواہ لائے جارہے ہیں تو قتل کے کیس میں سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔ مودی سرکار یہی چاہتی ہے۔‘‘
نصیر انقلابی، یاسین ملک کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ، یاسین ملک کی جیل میں طبیعت ناساز ہے۔ اطلاعات ہیں کہ وہ بہت کمزور ہوچکے ہیں اور بھارتی بزدل مودی حکومت انہیں صحت سے متعلق سہولیات فراہم نہیں کررہی۔ ویسے بھی انہوں نے نوجوانی میں بھارتی حکومتوں کا تشدد سہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ اسی وجہ سے بھوک ہڑتال بھی کرچکے تھے۔ انہیں گارنٹیاں دی گئیں کہ آپ کو باضابطہ طور پرعدالت میں پیش کیا جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ 4 اکتوبر کو یاسین ملک حق میں آزاد کشمیر میں بہت بڑی ریلیاں نکالی گئیں یہ لوکل سطح پر تو اثر انداز ہوسکتی ہیں، ہمیں عالمی سطح پر رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں کوئی واضح سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ عالمی برادری کے ضمیر سوئے ہوئے ہیں۔ ایک پرامن اور کمزور نہتے حریت لیڈر کے ساتھ جو ناانصافی ہورہی ہے، اسے روکنے کے لیے لوکل سطح سے اوپر اٹھنا ہوگا۔