محمد نعمان اشرف:
مجاہد کالونی میں کے ڈی اے، کے مسماری آپریشن سے مکینوں میں اشتعال پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ علاقے کی فاروق اعظم مسجد کو بھی شہید کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔ اس ضمن میں مکینوں کا کہنا ہے کہ مرجائیں گے لیکن مسجد کو کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ نوجوانوں پر مشتمل کمیٹی، مسجد کی حفاظت کے لیے دن رات ڈیوٹیاں دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ مجاہد کالونی میں سات اکتوبر کے روز درجنوں مکانات محض ایک نوٹس پر مسمار کردیئے گئے تھے۔ اس دوران خواتین، بچے اور بوڑھے اپنے تباہ شدہ مکانوں کے آگے کھڑے ڈی جی، کے ڈی اے اور ڈپٹی کمشنر سینٹرل کو بد دعائیں دیتے رہے۔ درجنوں علاقہ مکین رات کھلے آسمان تلے گزارنے پر مجبور ہیں۔
معلوم ہوا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرکے آنے والے افراد کو ناظم آباد کے علاقے مجاہد کالونی میں رہائش اختیار کرنے کا کہا گیا تھا۔ مجاہد کالونی کو پہلے مائی حلیمہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ آباد ی بڑھنے کے بعد اس کو موسیٰ گوٹھ کا نام دیا گیا۔ 1960ء میں جب یہاں ترقیاتی کاموں کا آغاز ہوا تو موسیٰ گوٹھ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ آبادی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ موسیٰ گوٹھ کا نام مجاہد کالونی رکھ دیا گیا۔ 1988ء کے الیکشن میں یہاں الحاج عجب خان نامی شخص کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے دور میں موسیٰ گوٹھ میں گیس بحال ہوئی۔ تاہم آبادی بڑھنے پر عجب خان نے ایک قانون پاس کروایا، جس میں طے کیا گیا تھا کہ مرکزی سڑک کی چوڑائی 32 فٹ اور فٹ پاتھ 5 فٹ حد مقرر ہے۔ تاہم اس حدود کے بعد آنے والے تمام مکانات کو مسمار کر دیا جائے گا۔ مشاہدے کے مطابق مجاہد کالونی کے مکینوں نے سڑک کی چوڑائی 32 فٹ ہی چھوڑ رکھی تھی اور فٹ پاتھ بھی کلیئر تھی۔ تاہم گزشتہ دنوں یہاں کے ڈی اے، کے ایم سی اور ضلعی انتظامیہ نے مشترکہ آپریشن کرکے درجنوں مکان مسمار کر دیئے۔ آپریشن کے دوران مکینوں کو بتایا گیا کہ سڑک کی چوڑائی 150 فٹ ہے۔ جس کے باعث غیر قانونی مکان مسمار کیے جارہے ہیں۔
آپریشن سے قبل کے ڈی اے حکام کی جانب سے مکینوں کو ایک نوٹس بھی بھیجا گیا تھا۔ نوٹس موصول ہونے کے بعد مکینوں نے جب کے ڈی اے دفتر رخ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ فی الحال کوئی آپریشن نہیں ہو رہا۔ ابھی نشانات لگنے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور نوٹس دیا جائے گا۔ اس تمام عمل کے بعد ہی مسماری آپریشن شروع ہوگا۔ مکین کے ڈی اے کی جھوٹی تسلی کے بعد مطمئن ہوگئے۔ تاہم سات اکتوبر کو اچانک ہیوی مشینری نے علاقے کا رخ کیا اور دکانوں و مکانوں کو مسمار کرنا شروع کردیا۔ علاقے میں بھگڈر مچ گئی۔ مکین ہیوی مشینری کے سامنے احتجاج کرنے کھڑے ہوئے تو انہیں پولیس کے ذریعے ہٹادیا گیا۔ اعلان کیا گیا کہ کل یہاں تمام مکانات مسمار کردیئے جائیں گے۔ لہذا مکین اپنے اپنے گھروں سے رہائش دوسری جگہ اختیار کرلیں۔ اگلے روز مکین، انسداد تجاوزات عملے کی منت سماجت کرتے رہے کہ ان کے پاس رہائش کا دوسرا بندوبست نہیں۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی سے یہ مکان بنایا ہے۔ لہذا انہیں کچھ وقت کی مہلت دیں۔ تاکہ وہ اپنی رہائش کا انتظام کرلیں۔ تاہم انسداد تجاوزات عملے نے مکینوں کی ایک نہ سنی اور مکانوں کو مسمار کرنا شروع کردیا۔
دوسری جانب جب تجاوزات آپریشن کا رخ جامع مسجد فاروق اعظم کی جانب کیا گیا تو مکین مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے کے ڈی اے اور ضلعی انتظامیہ کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔ مسجد کمیٹی اور علاقہ مکینوں نے انسداد تجاوزات عملے کو متنبہ کیا کہ اگر مسجد شہید کی گئی تو پھر ہم سڑکوں پر آجائیں گے۔ مسجد کے اطراف مشتعل مکینوں کو منتشر کرنے کے لیے اضافی نفری طلب کی گئی۔ تاہم لوگ منتشر نہیں ہوئے۔ جس کے بعد مسجد کے اطراف مسماری آپریشن روک دیا گیا۔ البتہ مسجد کے اطراف بنی دکانیں اور مکان مسمار کردیئے گئے ہیں۔
صورت حال کے بارے میں مجاہد کالونی کے مکان نمبر اے 252 کے رہائشی محمد عاصم رضا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ 40 سال سے یہاں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ مکان تعمیر کرتے وقت کے ایم سی اور کے ڈی اے کے بیٹرز یہاں سے وصولیاں کرکے جاتے رہے۔ اور آج ہمیں غیر قانونی کہہ کر مکان مسمار کردیا ہے۔ ہمیں ایک موقع بھی نہیں دیا گیا کہ ہم اپنی دستاویزات یا دیگر چیزیں انتظامیہ کو دکھاتے تاکہ ہمیں کوئی ریلیف مل جاتا۔ ہمارا مکان ٹوٹ گیا ہے۔ اب میں اپنے اہلخانہ کو لیکر کہاں جاؤں۔ میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ میں کوئی دوسرا مکان خرید سکوں۔ ڈپٹی کمشنر سینٹرل یہاں آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ میں نے ان کی منت سماجت بھی کی۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ جو دن رات کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمیں کم از کم ایک ماہ کی مہلت دی جاتی، تاکہ ہم اپنی رہائش کا انتطام کرلیتے۔ معلوم نہیں ہمیں بے گھر کرکے کس کو خوش کیا جا رہا ہے؟۔
ایک اور مکین سید سلیم شاہ نے بتایا کہ جب میں یہاں رہائش اختیار کرنے کے لیے آیا تھا تو یہاں صرف جنگل تھا۔ ہم نے اس علاقے کو آباد کیا اور آج یہ لوگ ہمیں غیر قانونی مکین کہہ رہے ہیں۔ جبکہ مجاہد کالونی میں ایک بھی مکان غیر قانونی نہیں۔ سرکار نے ہمیں یہ جگہ الاٹ کی تھی۔ اگر ہم غیر قانونی ہیں تو پہلے سندھ حکومت سے پوچھا جائے کہ ہمیں یہ جگہ کیوں الاٹ کی گئی۔ کے ایم سی اور کے ڈی اے کے افسران سے پوچھا جائے کہ ہم سے لاکھوں روپے کیوں اینٹھے گئے تھے؟ جب کہ ہمارے پاس مختلف قسم کے دستاویزات موجود ہیں۔
ایک متاثرہ مکین ثاقب صدیقی نے بتایا کہ 50 سال سے یہاں رہائش اختیار کیا ہوا ہوں۔ میرا مکان اور 2 دکانیں مسمار کردی گئی ہیں۔ ہم غریب و لاچار ہیں۔ ہماری آواز کوئی نہیں سنے گا۔ لیکن میرے بچے کے ڈی اے اور ڈپٹی کمشنر سینٹرل کو بد دعائیں دے رہے ہیں۔ ہم ملبے پر بیٹھ کر اپنا بچا کھچا سامان ڈھونڈ رہے ہیں۔ ساری زندگی کی جمع پونجی چند منٹوں میں مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردی گئی۔ میری دکانوں سے کے ڈی اے کے بیٹرز وصولیاں کرکے جاتے رہے ہیں۔ کبھی ٹریڈ لائسنس کی مد میں تو کبھی کسی اور چیز کی مد میں۔ اگر میں غیر قانونی مکین تھا تو یہ کیوں مجھ سے رقم لیکر جاتے رہے؟۔
ایک متاثرہ خاتون جنت بی بی نے بتایا کہ کھلے آسمان تلے ہمارے بچے بھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ کھانا پکانے کا کوئی انتظام نہیں۔ ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ تین وقت ہوٹل سے خرید کر کھا سکیں۔ ظالموں نے میرا مکان توڑ دیا۔ اب میں اپنے چھوٹے بچے لے کر کہاں جاؤں؟ میرے شوہر کو بھی فالج کے مرض نے گھیر رکھا ہے۔ میں گھروں میں کام کرکے بچوں کی کفالت کرتی ہوں۔ خدارا ہمیں بے گھر نہیں ہونے دیں۔ ہمارے لیے متبادل رہائش کا بندوبست کردیں تاکہ ہم اپنی زندگی آسانی سے گزارسکیں۔
’’امت‘‘ کو جے یو آئی ضلع وسطی کے صدر مولانا عبدالرشید نعمانی نے بتایا کہ، مسجد کے حوالے سے ہم نے ڈپٹی کمشنر سینٹرل طلحہ سلیم سے ملاقات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ مسجد کے مقابل ہی ایک چورنگی بنی ہوئی ہے۔ جس کا کوئی کام نہیں۔ اگر آپ کو سڑک چوڑی کرنی ہے تو اس چورنگی کو مسمار کردیں۔ لیکن مسجد کو ہم کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر سینٹرل کو ہم نے یہ بھی بتایا کہ جن لوگوں کے مکان ٹوٹ گئے ہیں، ان کا متبادل انتظام کیا جائے۔ اگر مکینوں کو متبادل جگہ فراہم نہ کی گئی تو پھر یہاں احتجاج ہوگا۔ ہم نے ڈپٹی کمشنر کو واضع پیغام دیا ہے کہ ہم مرجائیں گے لیکن مسجد کو شہید نہیں ہونے دیں گے۔ اگر مسجد کی جانب کوئی بھی آیا تو پہلے اسے ہم سے نمٹنا ہوگا۔ عبدالرشید نعمانی کا کہنا تھا کہ، ’’میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا ہے کہ شاید میں ڈر کے بیٹھ جاؤں گا۔ لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ مجھے گرفتار کرنا ہے تو کریں۔ میں کب گرفتاری سے ڈرتا ہوں۔ لیکن مسجد کو شہید نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہمارا موقف ہے اور اس پر ہی قائم رہیں گے۔ اگر ڈاکٹر عاصم کو خوش کرنے کے لیے یہاں آپریشن کیا جا رہا ہے تو پھر وہ بھی سن لیں کہ مسجد کو شہید کرنے کا سوچیں بھی نہیں‘‘۔
اس حوالے سے موقف جاننے کیلئے ’’امت‘‘ کی جانب سے ڈپٹی کمشنر سینٹرل طلحہ سلیم اور ڈی جی کے ڈی اے محمد علی شاہ سے رابطے کی کوشش کی گئی۔ تاہم انہوں نے کال اٹینڈ نہیں کی۔