امت رپورٹ: دوسری اورآخری قسط
کراچی کے سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوششیں پچھلے چھ برس سے جاری ہیں۔ لیکن تاحال کامیاب نہیں ہو سکیں۔ دو ہزار سولہ میں ریاست مخالف تقریر پر بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی ملکی سیاست سے بے دخلی کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی سندھ میں اردو بولنے والے شہری ووٹرز کے لیے مایوسی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ دھڑے بندی اور اندرونی انتشار اس کا بنیادی سبب ہے۔ اس خلفشار کی وجہ سے مہاجر ووٹ بینک بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پی ایس پی ایک نشست بھی نہیں جیت پائی تھی۔ جبکہ ایم کیو ایم پاکستان، کراچی سے قومی اسمبلی کی محض چار نشستیں حاصل کر سکی تھی۔ رہی سہی کسر پچھلے برس ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں بدترین شکست نے پوری کر دی۔ دوسری جانب کراچی سے پہلی بار قومی اسمبلی کی چودہ سیٹیں جیتنے والی تحریک انصاف کے منتخب نمائندوں کی نااہلی اور ناقص کارکردگی نے شہریوں کے احساس محرومی میں اضافہ کیا ہے۔ یوں کراچی میں سیاسی خلا بڑھتا جارہا ہے۔
اس سیاسی خلا کو دور کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو پہلے ایک دوسرے میں ضم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جو عین وقت پر ناکام ہو گئی۔ نومبر دو ہزار سترہ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کر کے اس وقت ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار اور پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال نے ’’ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور‘‘ کے ساتھ دوبارہ منظم ہونے کا اعلان کیا تھا۔ قریباً پانچ برس قبل ہونے والی اس پیش رفت کے پس پردہ تفصیلات سے آگاہ ذرائع کے مطابق دونوں دھڑوں کو ایک کرنے کی پس پردہ کوششیں پچھلے آٹھ ماہ سے ہو رہی تھیں۔ تاہم آٹھ ماہ کی ان کوششوں کا اختتام محض اڑتالیس گھنٹے میں ہو گیا۔ جب پریس کانفرنس کے اگلے روز ہی فاروق ستار نے دونوں گروپوں میں انضمام کے اعلان سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
اس کے بعد بھی ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو ایک کرنے کی پس پردہ کوششوں کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم ذرائع کے مطابق بعد میں ہونے والی کوششوں میں دھڑوں کے ’’انضمام‘‘ کے بجائے ’’اتحاد‘‘ پر فوکس کیا گیا۔ مقصد ایک ہی تھا کہ کسی طرح کراچی جیسے اہم شہر کے سیاسی خلا کو دور کیا جا سکے۔ کیونکہ پالیسی سازوں کے خیال میں ملک کے معاشی مرکز میں موجود سیاسی خلا سے غیر ریاستی عناصر کو جگہ ملے گی اور اس کے نتیجے میں امن و امان خراب ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس سیاسی خلا کے نتیجے میں شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ پانی، بجلی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی مسائل حل نہ ہونے کے سبب عوام کی بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں انضمام کی ناکام کوشش کے بعد کم از کم تین مواقع ایسے تھے۔ جب ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں میں اتحاد کی خاطر سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی خدمات حاصل کرنے کے پلان بنائے گئے۔ بادشاہ گروں کی جانب سے اس نوعیت کی اولین دو کوششیں بالترتیب دو ہزار سترہ اور دو ہزار اٹھارہ کے اواخر میں کی گئیں۔ لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ بعد ازاں تیسری بار اس سلسلے میں سب سے ٹھوس پس پردہ کوششیں گزشتہ برس دو ہزار اکیس میں کی گئیں۔ تب ڈاکٹر عشرت العباد کو دوبارہ کراچی کے سیاسی میدان میں اتارنے کی تیاری تقریباً مکمل تھی۔
انہوں نے خود بھی ایم کیو ایم پاکستان کے بعض رہنمائوں سے اپنی واپسی پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ تاہم ذرائع کے بقول اس تیسری کوشش کے پیچھے براہ راست طاقتور حلقے نہیں تھے۔ البتہ ان کی طرف سے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو واضح طور پر خبردار کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے باہمی اتفاق کے ذریعے مہاجر ووٹ بینک کو یکجا نہیں کیا، تو اس کے نتیجے میں سندھ میں اردو بولنے والے شہری ووٹر کی مایوسی بتدریج بڑھے گی۔ کراچی کے سیاسی خلا میں مزید اضافہ ہو گا۔ جبکہ آنے والے بلدیاتی الیکشن اور جنرل الیکشن کے نتائج پر بھی ایم کیو ایم کی اس تقسیم کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق یہ انتباہ گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کی واضح شکست کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ کنٹونمنٹ بورڈز الیکشن کے نتائج سے واضح ہو گیا تھا کہ ایم کیو ایم میں دھڑے بندی اور اس کے اندرونی خلفشار کے سبب پہلے سے مایوس اردو بولنے والے ووٹرز نے خود کو الگ تھلگ کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق کنٹونمنٹ بورڈز انتخابات کے نتائج اور مستقبل کے الیکشنوں پر اس کے اثرات کا ادراک کرتے ہوئے آخرکار ایم کیو ایم گروپوں کے کرتا دھرتائوں نے اپنے طور پر مہاجر ووٹ بینک کو یکجا کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ جو چند ماہ پہلے سے جاری تھیں۔ تاہم اس بار مقصد ایم کیو ایم بہادر آباد، ایم کیو ایم پی آئی بی اور پی ایس پی کو آپس میں ضم کرنا نہیں تھا۔ بلکہ اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسے اتحاد کی بنیاد رکھنا تھا۔ جس کے نتیجے میں منقسم مہاجر ووٹ بینک کو ایک کیا جا سکے اوراردو بولنے والے ووٹرز کو امید کی نئی کرن مل جائے۔ چنانچہ اس مجوزہ اتحاد کے لیے پس پردہ کوششوں کا آغاز ہوا اور اس سلسلے میں دبئی میں مقیم سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے رابطے کیے گئے۔
ان کوششوں میں شریک رہنمائوں کا خیال تھا کہ آپس کے اختلافات ختم کرانے میں ڈاکٹر عشرت العباد اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے مابین اتحاد کی ان کوششوں میں جہاں یہ رکاوٹ نمایاں طور پر دیکھنے میں آئی کہ ہر گروپ کا سربراہ اپنی پارٹی پوزیشن سے دستبردار ہونے پر آمادہ نہیں تھا، تو وہیں ڈاکٹر عشرت العباد کی جانب سے فوری طور پر کراچی آنے سے معذرت بھی ان کوششوں کے اختتام کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے اگرچہ کراچی واپس آنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ تاہم وہ اس کے لیے کچھ وقت چاہتے تھے۔ ان معاملات سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ ڈاکٹر عشرت العباد کو اپنی سیکورٹی سے متعلق خدشات لاحق تھے۔ لہٰذا وہ فوری کراچی آنے سے انکاری ہو گئے۔ عشرت العباد شروع کے چند ماہ یا کم از کم ایک برس دبئی میں ہی بیٹھ کر اس ٹاسک پر کام کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اتحاد کی کوششوں میں شریک کرداروں کا خیال تھا کہ مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ڈاکٹر عشرت العباد کا فوری کراچی آنا ضروری ہے۔ لیکن اصرار کے باوجود عشرت العباد نے ان کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ یوں ساری تیاریاں دھری رہ گئیں۔
ذرائع کے بقول ایم کیو ایم پاکستان کے چند ایک کو چھوڑ کر باقی اکثریتی رہنمائوں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر عشرت العباد نہ صرف اختلافات دور کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بلکہ طویل ترین عرصے تک اہم آئینی عہدے پر رہنے کی وجہ سے وہ پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر عشرت العباد کو دوبارہ کراچی کے سیاسی میدان میں اتارنے کی تیسری کوشش بھی ناکام رہی۔ ذرائع کے بقول ڈاکٹر عشرت العباد اب بھی ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان کے کئی رہنمائوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ تاہم کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم پاکستان میں واپسی کے بعد سابق گورنر کا رول فی الحال پس منظر میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
اگرچہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے کئی رہنمائوں کے لیے ڈاکٹر عشرت العباد اب بھی قابل قبول ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال اتحاد کی کوششوں میں ڈاکٹر عشرت العباد کو شریک کرنے کے حق میں پہلے بھی نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد سے مصطفی کمال کی مخاصمت کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ سابق گورنر شروع سے ہی پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے قیام کے مخالف رہے ہیں۔ ان کی دانست میں پی ایس پی کی تشکیل مہاجر کمیونٹی کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ وہ ایم کیو ایم کے بیشتر کرمنلز کی پی ایس پی میں شمولیت کے بھی سخت ناقد رہے ہیں۔
اب ایک بار پھر کامران ٹیسوری کے ذریعے ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کے مابین اتحاد کی نئی کوششوں کا آغاز ہوا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار بھی ایم کیو ایم کے دھڑوں کے درمیان مفاہمت ممکن دکھائی نہیں دے رہی۔ اگر موجودہ حالات برقرار رہتے ہیں تو اس کا خمیازہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو عنقریب ہونے والے بلدیاتی الیکشن اور آئندہ عام انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ جبکہ ملک کے معاشی حب کراچی میں سیاسی خلا مزید بڑھ جائے گا۔ انیس سو اٹھاسی سے الطاف حسین کی زیرقیادت ایم کیو ایم کی مخالفت کرنے والے ایک بزرگ مہاجر سیاست داں اور دانشور نے تو کامران ٹیسوری کی واپسی کو ایم کیو ایم پاکستان کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا ہے۔