’’رشوت کے گڑھ کے پی ٹی سے استعفیٰ دے دیا‘‘ عارف الحق عارف

بارہواں حصہ
دفتر اور کالج سے ہم سیدھے جمیعت کے دفتر آجاتے اور کاموں میں مصروف ہو جاتے۔ ہمارا کام جمیعت کی سرگرمیوں کی خبر بنانا تھا۔ جس کو ناظم کراچی پڑھ کر حتمی شکل دیتے۔ اس کے علاوہ بھی اگر کچھ کام ہوتے ان کو بھی خوشی خوشی انجام دیتے اور جب کرنے کو کچھ نہ ہوتا تو لائبریری میں موجود کسی اچھی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیتے۔ کارکن اور رکن بننے کیلئے ایک نصاب تھا، جن میں چند کتب کا مطالعہ ضروری تھا۔ ہم نے چونکہ اس نصاب میں شامل کتب اور کتابچوں کے علاوہ بھی مزید کئی کتب کا مطالعہ کرلیا تھا۔ اس لئے ہمیں جلد ہی کارکن بنا لیا گیا اور 1966ء میں رکنیت منظور ہوگئی۔
ہم اس وقت ایس ایم آرٹس میں بی اے فائنل کے طالب علم تھے جو جمیعت کے دفتر اور جنگ کے دفتر کے درمیان چند منٹ کے پیدل راستے پر تھا۔ ہم نے اردو کالج چھوڑ کر ایس ایم آرٹس کالج میں داخلہ لیا ہی اس لئے تھا کہ یہ جمیعت کے دفتر کے بہت قریب تھا۔ اس عرصے میں ہمیں دینی کتب کے مطالعے اور جمیعت کے ساتھ عملی طور پر کام کے دوران تربیت نے پوری طرح بدل کر رکھ دیا تھا اور اسلام کی تعلیمات اور اصول واضح ہو کر سامنے آرہے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا دل کے پی ٹی کی ملازمت سے بدظن ہونے لگا۔ حالانکہ یہی ملازمت ہمارے کراچی میں مستقل قیام کی وجہ بنی تھی اور ایک ایسے وقت ملی تھی جب ہم در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد مایوسی کی انتہا پر پہنچ چکے تھے اور واپس کشمیر جانے کیلئے تیار ہو گئے تھے۔ تاہم، اس سے متنفر ہونے اور چھوڑنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ کے پی ٹی رشوت کا گڑھ تھا اور ہمیں سید مودودیؒ کے لٹریچر نے اس کی خوبیوں سے ’’گمراہ‘‘ کر دیا تھا۔ کے پی ٹی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا، جس میں رشوت کے بغیر کام ہوتا ہو۔ ہر کام کی رشوت طے تھی جو بغیر طلب کئے مل جاتی تھی۔ بعض لوگ ان کے کام کے لحاظ سے متعین رشوت پر مطمئن نہیں ہوتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے دوسرے طریقے دریافت کر لئے تھے۔ اس کو آپ ایک مثال سے باآسانی سمجھ سکیں گے۔


بندرگاہ کا اصل کام پاکستانی مصنوعات کی بیرون ملک برآمدات اور بیرونی ممالک سے اشیا کی درآمدات کا ریکارڈ رکھنا ہے۔ اس کا طریقہ کار دوسری متعدد دستاویزات کی تیاری و فراہمی کے علاوہ آنے اور جانے والی اشیا کے ڈبوں یا لکڑی کی پیٹیوں پر لکھے گئے پتے (مارکہ) کو دستاویزات کے عین مطابق چیک کرنا اور پھر اس کی روانگی یا انہیں درآمد کنندگان کے حوالے کرنا ہوتا ہے، جس کو ڈیلیوری کہا جاتا ہے۔ رشوت کے طریقوں کے ماہر بڑی باریک بینی سے ان مارکوں کو اصل دستاویزات کے لفظ لفظ، کاما کاما اور فل اسٹاپ سے چیک کرتے اور اگر ایک لفظ، کاما یا فل اسٹاپ کا فرق دیکھ لیتے تو سارا کام روک دیتے۔ درآمد اور برآمد کنند گان کو جہاز پر مال چڑھانے اور بندرگاہ سے مال کی فوری ڈیلیوری لینے میں جلدی ہوتی۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ڈیمریج کی شکل میں بھاری جرمانے کے علاوہ اپنے سیٹھوں کی ناراضگی مول لینے کے ساتھ ملازمت کے چھوٹ جانے تک کا خدشہ ہوتا۔ اس لئے وہ منہ مانگی رشوت دینے پر مجبور ہو جاتے۔ ہم نے صرف یہ ایک مثال بیان کی۔ ورنہ رشوت کئلئے مجبور کرنے کے ایسے دسیوں طریقے موجود تھے اور اب بھی ہوں گے اور ہو سکتا ہے پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن اور تشویش کی بات ایک اور تھی کہ اس رشوت کو جائز قرار دینے کیلئے طرح طرح کے دلائل کا سہارا لیا جارہا تھا۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ سرے سے رشوت ہے ہی نہیں۔ کیونکہ تاجر (درآمد کنندگان اور برآمد کندگان) کلیئرنگ اور فارور ڈنگ کمپنیوں کو سرکاری واجبات کے علاوہ کلیئرنگ اور فارورڈنگ کے سارے مراحل کی رشوت کی رقم بھی طے شدہ طریقہ کار کے تحت اداکر دیتے ہیں۔ تاکہ سارے کام جلدی ہو سکیں۔ اگر ہم یہ معین رقم نہیں لیں گے تو تاجروں کی ادا کردہ رقم کمپنی ان کمپنیوں کا عملہ خود رکھ لے گا۔ رشوت کا یہ لین دین اس قدر عام ہو گیا تھا کہ اگر کوئی اس کے خلاف بات کرتا تو اس کو نکو بنا دیا جاتا۔ جیسے یہ اس دور کا آدمی ہی نہ ہو۔ ہمیں یاد آرہا ہے کہ ایسٹ وہارف کے ایک نہایت متقی اور پرہیزگار اور باریش اعلیٰ افسر کا مشہور حدیث ’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں‘‘ کا تصور یہ تھا کہ اس کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوگا جو اپنے ہاتھ سے رشوت دیتے یا لیتے ہوں۔ چونکہ وہ رشوت لینے والے تھے اس لئے ان کا ہمیشہ یہ ’’اسلامی‘‘ اور ’’اصولی‘‘ طریقہ رہا کہ کبھی رشوت کے پیسے کو ہاتھ سے وصول نہیں کیا۔ بلکہ اگر وہ مصلی پر نماز بھی پڑھ رہے ہوں تو وہ رشوت دینے والے کو ہاتھ کے اشارے سے میز کی کھلی دراز کی طرف اشارہ کرتے کہ اس کو اس میں رکھ دو اور گھر جاتے وقت اپنے چپڑاسی کو کہتے کہ رشوت کی رقم ایک تھیلے میں ڈال کر گھر لے چلو۔ بعض لوگوں نے اپنی پسند کا سوال پیش کرکے بعض علمائے کرام سے اس کے جواز کا فتوی بھی لے رکھا تھا۔ اس ساری صورتحال سے ہم سخت پریشان تھے اور چاہتے تھے کہ اس ملازمت سے الگ ہو جاہیں اور روزگار کا کوئی ایسا ذریعہ تلاش کریں، جہاں رشوت ستانی کا دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔ ہم نے اپنی اس تشویش کا ذکر ناظم کراچی سید منور حسن اور معتمد آصف صدیقی کے علاوہ دوسرے ساتھیوں سے بھی کیا۔ جنہوں نے تسلی دی کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ آپ نے بہت اچھا سوچا ہے۔ اللہ ضرور کوئی سبیل پیدا کرے گا اور کوئی نہ کوئی ملازمت مل جائے گی۔
حالات کا جبر تھا یا مقدر میں ایسا ہی لکھا تھا کہ ہم پانچ سال بعد ایک بار پھر ملازمت کی تلاش میں فکرمند اور مارے مارے پھر رہے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے ہم بلکل تنہا تھے اور اگر کوئی تعاون تھا تو ہمارے دوست بشیر اور ان کے خاندان کا تھا۔ لیکن اب ہمارے تعارف کا حلقہ وسیع ہو گیا تھا اور ہم تحریک اسلامی کے ایک خاندان کا حصہ بن گئے تھے۔ ہمیں مخلص دینی اور نظریاتی بھائی میسر آگئے تھے۔ منور بھائی اور آصف صدیقی سے تو ذکر کر ہی چکے تھے۔ انہوں نے اس پر سوچنا شروع کردیا تھا۔ اس سوچ بچار میں بڑا وقت لگ گیا۔ کیونکہ یہ کوئی آسان مسئلہ نہیں تھا۔ ہمارا کے پی ٹی کی ملازمت چھوڑنے کا خیال 1964 ہی سے تھا۔ لیکن باقاعدہ استعفے کا عملی قدم اکتوبر 1965ء میں اٹھایا۔ یہ سال ڈیڑھ سال کا عرصہ اس فکر میں صرف ہوا کہ ملازمت چھوڑ کر کریں گے کیا؟۔ ایک دوست کے توسط سے صدر میں کپڑے کے ایک تاجر سے جو جماعت کا کارکن تھا، یہ بات طے ہوگئی کہ اگر ہم نے کے پی ٹی کی ملازمت چھوڑ دی تو وہ اپنی دکان میں سیلز مین کی حیثیت سے ہمیں رکھ لیں گے۔ وہ رشوت سے ہماری بیزاری سے بڑے متاثر ہوئے تھے۔ ان کی دکان صدر میں ریگل چوک سے متصل چرچ کی دیوار کے ساتھ امپریس مارکیٹ کو جانے والی مصروف ترین شاہراہ پر چھوٹے چھوٹے کیبن نما سینکڑوں دکانوں کے بیچ میں تھی۔ اس وقت ابھی صدر کی مشہور کوآپریٹو مارکیٹ تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے مہاجر ین کیلئے یہ عارضی انتظام کیا گیا تھا۔ ان دکان داروں کو، کوآپریٹو مارکیٹ کی تعمیر کے بعد وہاں منتقل کیا گیا تھا۔


سیلز مین کی عارضی ملازمت کی یقین دہانی کے بعد اکتوبر 1965ء میں ہم نے ملازمت سے استعفیٰ دیدیا اور نئی ملازمت کیلئے سیدھے اس دکاندار کے پاس گئے، جس نے اپنی دکان پر ملازمت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس کے یہاں سے جو جواب ملا، اس سے ہم ہل کر رہ گئے۔ ان کا کہنا تھا ’’میں نے آپ کا بڑا انتظار کیا مگر آپ کا کچھ پتا نہیں چلا تو میں نے دوسرا سیلز مین رکھ لیا۔ اب آپ کیلئے کوئی گنجائش نہیں۔ میرا چھوٹا سا کاروبار ہے جو دو سیلز مین رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔ یہ سن کر ہم ہماری کیفیت غیر ہو گئی۔ ہم بڑے پریشان ہوئے کہ جس آسرے پر نوکری چھوڑی، وہی جاتا رہا۔ اس پریشان خیالی میں ہم جہانگیر پارک صدر پہنچے، جہاں ہم چند دوست بی اے کے امتحان کی تیاری مل کر کرتے تھے۔ اس وقت وہاں جانے کا مقصد یہ تھا کہ دوستوں سے اپنی پریشانی کو شیئر کریں اور بیروزگاری کے مسئلے کا کوئی حل نکال سکیں۔ ابھی دوستوں کے ساتھ بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اچانک ہمارے ایک روم میٹ وہاں آگئے اور یہ خبر دی کہ ’’آپ کے والد صاحب کشمیر سے آئے ہیں، گھر چلیں‘‘۔ ان کے آنے کی خوشی تو بہت ہوئی۔ لیکن یہ فکر سوار ہوگئی کہ اب روزمرہ کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ جیب میں ایک روپیہ نہیں تھا۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شخص کا کیا حال ہو سکتا ہے جو ملازمت ایک اور نوکری کی یقین دہانی پر چھوڑ دے۔ جس دوسری ملازمت کے بھروسے پر استعفیٰ دے، وہ اسے نہ مل پائی۔ جیب میں ایک روپیہ بھی نہ ہو۔ والد صاحب دوردراز کا سفر کرکے اچانک آجائیں اور بی اے کے امتحان میں چند ماہ باقی رہ گئے ہوں۔ سچی بات یہ تھی کہ اس موقع پر ہمیں واقعی دن میں تارے نظر آگئے۔ یہ کیفیت تھوڑی دیر تک رہی۔ کچھ سوجھ نہیں رہا تھا کہ کیا کریں۔ اچانک ایک خیال نے ہماری سوچ کا رخ بدل دیا۔ جیسے کوئی الہام ہوا ہو کہ ان شاء اللہ روزگار کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ ہمارے ذہن میں اپنے ایک دوست زکریا صدیقی کا خیال آگیا، جن سے ہم بڑے بے تکلف تھے اور اپنا ہر مسئلہ ان کے ساتھ بلا تکلف بیان کر دیتے تھے۔ چنانچہ ہم نے جہانگیر پارک سے سیدھے زکریا صدیقی کے پاس برنس روڈ آنے کا فیصلہ کیا جہاں ان کا پرنٹنگ پریس تھا۔
زکریا صدیقی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے بڑے بھائی حکیم محمد یامین صدیقی کراچی کی مشہور شخصیت اور علاقائی کونسلر تھے۔ ڈرگ کالونی، ملیر، سعودآباد میں ان کا بڑا نام تھا۔ ان کے ایک اور بھائی محمد اسحاق صدیقی جماعت اسلامی کراچی کے ناظم نشر و اشاعت اور دوسرے بھائی محمد یونس صدیقی ایڈووکیٹ تھے۔ زکریا صدیقی بھی دور طالب علمی میں جمیعت میں مرکزی شوری کے رکن رہ چکے تھے۔ وہ فرائیڈے اسپیشل کے مدیر یحییٰ بن زکریا کے والد اور امریکہ میں دنیا ٹی وی کے بیورو چیف معاوز صدیقی کے چچا تھے۔ زکریا بھائی سے ہمہارے تعارف کا سبب بھی اسلامی جمیعت طلبہ تھی۔ ہم جمعیت میں سیکریٹری نشرواشاعت اور ناظم ادارہ مطبوعات طلبا تھے۔ کالج کے میگزین، جمیعت کے کتابچے، کتب، اشتہارات اور پوسٹرز کی طباعت کیلئے ان سے رابطہ رہتا تھا اور وہی ان کی پرنٹنگ کا اہتمام کرتے تھے۔ اس کام کیلئے ان کے انتخاب کی ایک وجہ بھی جمیعت ہی تھی۔ یہی تعلق ہم دونوں کے درمیان دوستی کی وجہ بنا تھا۔ ان سے پرنٹنگ کا کام کرانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کا پریس برنس روڈ پر تھا جو جمیعت کے دفتر سے بہت ہی قریب تھا اور جلد رابطہ کیا جاسکتا تھا۔ وہ یہ پریس کسی دوست کی شراکت میں چلا رہے تھے۔ ہم جہانگیر پارک سے بس کے ذریعہ برنس روڈ اترے اور ان کے پاس پہنچ گئے۔ ہم صدمے سے بے حال تھے۔ چہرہ اترا ہوا تھا، جو ہماری پریشانی کی چغلی کھا رہا تھا۔ چہرے پر چھائی پریشانی پکار پکار کر حال دل کہہ رہی تھی۔
زکریا بھائی نے جو ہمیں اس حال میں دیکھا تو پوچھا ’’کیا بات ہے، اتنے پریشان کیوں ہو؟ چہرا کیوں اترا ہوا ہے؟ کیا ہوا تمہارے ساتھ؟‘‘۔ ہم نے انہیں ایک ایک بات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دی۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے دل کا بوجھ اتر گیا ہو۔ ان کے جواب نے ہماری پریشان کن سوچوں کو ایک نیا رخ دیا، جس میں امید کی کرن دکھائی دی۔ کہنے لگے ’’اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ اللہ اپنا فضل کرے گا۔ میرے ذہن میں اس مسئلے کا حل موجود ہے اور مجھے امید ہے تم اس کو کر لو گے۔ مجھے علم ہے، تمہارے اس شہر میں اچھے لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ یہ میں جانتا ہوں۔ ابھی یہ لو دو سو روپے۔ آج ہی ایک آرڈر کی وصولی ہوئی ہے۔ یہ تمہارے دو تین ماہ کا خرچ ہے۔ ابّا کی خدمت کرو اور سالانہ امتحان کی اطمینان سے تیاری بھی۔ جب امتحان دے لو تو پھر میرے پاس آؤ اور پرنٹنگ کا کام شروع کردو۔ کام تم لاؤ،کمیشن میں دوں گا۔ ملازمت سے زیادہ کماؤ گے‘‘۔ وہ یہ باتیں اس طرح اطمینان کے ساتھ کر رہے تھے جیسے انہیں کامیابی کا پورا یقین ہو۔ ہمدردی ان کے ایک ایک لفظ سے جھلک رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ان کی باتوں سے بڑا حوصلہ مل رہا تھا۔ ہماری ساری پریشانی دور ہوگئی۔ اس زمانے میں ہم بی ہائنڈ جیکب لائنز (موجودہ خدادادکالونی) میں رہتے تھے۔ اسی وقت سیدھے اپنے گھر گئے۔ والد صاحب کو خوش آمدید کہا۔ دو تین ماہ بڑے اطمینان کے ساتھ گزر گئے۔ ہمیں کسی اور سے کچھ بھی لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ والد صاحب کو پورا وقت بھی دیا اور ان کی مقدور بھر خدمت بھی کی۔ بڑے اطمینان کے ساتھ امتحان کی تیاری کی اور اس کو پاس بھی کرلیا۔ کو ئی تین ماہ کے بعد زکریا صدیقی کی رہنمائی میں پرنٹنگ کا کام شروع کردیا۔ جو شروع میں تو مشکل لگا۔ لیکن بعد میں بتدریج اس کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھتا گیا اور اس کام سے پوری واقفیت اور دلچسپی بھی ہو گئی۔
زکریا بھائی کی بات درست ثابت ہوئی۔ پرنٹنگ کے آرڈر حاصل کرنے میں ہمارے تعلقات بڑے مفید ثابت ہوئے اور کام ملنے لگا۔ جس سے زندگی بڑے ٹھہراؤ اور اطمینان کے ساتھ گزرنے لگی۔ آہستہ آہستہ آمدنی بھی بڑھنے لگی۔ پرنٹنگ کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ متعدد کاروباری اداروں کی اسٹیشنری کا کام ملنے لگا۔ جن میں سب سے بڑا ادارہ موٹر سائیکل بنانے والی ایک کمپنی اٹلس ہنڈا تھا جو نیا نیا قائم ہوا تھا۔ اس کے سربراہ یوسف حسین شیرازی تھے۔ یہ کام بھی تعلقات کی وجہ سے ملا تھا۔ اٹلس ہنڈا میں ایک صاحب محمد امین کمپنی کے سیکریٹری تھے۔ جو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں بڑا اہم عہدہ ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت کمپنی میں وہی ہوتی ہے جو صوبائی حکومت میں وزیراعلی کے بعد چیف سیکریٹری کی ہو تی ہے۔ وہ بی ہائنڈ جیکب لائنز میں ہمارے پڑوسی تھے۔ ان سے ہمارا روز کا ملنا جلنا تھا۔ ان سے ذکر کیا تو ہمیں دفتر بلا لیا اور کچھ معلومات لینے اور شرائط طے کرنے کے بعد انہوں نے پرنٹنگ کا کام ہمیں دے دیا۔ اسی طرح مزید تجارتی کمپنیوں کا پرنٹنگ کا کام بھی ملنا شروع ہوگیا۔ کام اتنا زیادہ مل رہا تھا کہ زکریا صاحب کیلئے پرنٹنگ کے کام کو وقت پر مکمل کرنا اور ڈیلیور کرنا مشکل ہوگیا۔ اس لئے کہ ان کے پاس ایک ہی پرنٹنگ مشین تھی۔


کے پی ٹی میں ہمیں 143 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ لیکن اس نئے کاروبار سے تین ماہ بعد ہی ایک ہزار روپے ماہانہ آمدنی شروع ہوگئی۔ بسوں کے بجائے رکشہ اور ٹیکسی میں سفر شروع ہوگیا۔ اچھا کھانا پینا اور پہننا معمول کا عمل ہو گیا۔ اسے آپ خوشحالی کا دور کہہ سکتے ہیں۔ اب ہمیں کسی کی محتاجی نہیں رہی تھی۔ اس نئے کاروبار کا سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا۔ اس دوران اردو کتابت اورپرنٹنگ کے کام بھی آنے لگے۔ کام کے پھیلاؤ نے ہمیں اردو پرنٹنگ اور کتابت کی راہ دکھائی۔ چنانچہ ہم نے اردو کتب یا جرائد کی کتابت کیلئے’’جدید خطاطی‘‘ کے نام سے اورنگ زیب مارکیٹ میں ایک ادارہ قائم کردیا۔ جہاں کراچی کے دو نامور کاتب سلطان علی اور مظہر عقیل موجود تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں جنگ کی شہ سرخیاں بھی لکھتے ہیں۔ ہم نے 25 فی صدی کی حصہ داری پر ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا اور’’انجمن ترقیٔ اردو‘‘ کے پریس ’’انجمن پریس‘‘ کے منیجر سعدی صاحب سے اردو پرنٹنگ کا معاملہ طے کر لیا۔ یہ کام بھی خوب چلا۔ انگلش اور اردو پرنٹنگ کے کام کا حجم اس قدر بڑھ گیا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ اس کاروبار کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا تھا اور اس سے ہو نے والی آمدنی سے اپنے اور گھر والوں کے اخراجات کے علاوہ کچھ رقم پس انداز بھی کر لی تھی۔ والد صاحب چار پانچ ماہ تک ہمارے پاس رہے۔ اس دوران ان کی ایک آنکھ کا آپریشن بھی کرایا اور ان کو کراچی کی سیر بھی کرائی اور تاریخی مقامات منوڑ ا کا جزیرہ اور کلفٹن، ہاکس بے اور پیراڈائز کے مقامات بھی دکھائے اور جب وہ واپس جانے لگے تو انہیں کشمیر میں اپنے بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کیلئے تحائف بھی لے کر دیئے۔ اسی عرصے میں بی اے کے سالانہ امتحان کے نتیجے کا اعلان بھی ہوگیا تھا۔ جس میں ہم پاس ہو گئے۔ مزید تعلیم کا جنون ابھی اپنی جگہ موجود تھا۔ جو کاروبار کے ساتھ جاری رکھنا مشکل تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا کہ یو نیورسٹی میں داخلہ لیا جائے۔ اس لئے اس کاروبار کو آہستہ آہستہ سمیٹنا شروع کر دیا۔ پرنٹنگ کے جو کام موجود تھے، انہیں جلد از جلد مکمل کرایا گیا اور ان کی ذمہ داری پوری کرنے کا مرحلہ وار پروگرام بنا لیا۔ اس کا ذکر زکریا بھائی سے کیا تو وہ بڑے حیران ہوئے کہ ’’ایک وقت تھا کہ تم ملازمت اور روزگار نہ ہونے پر بہت ہی زیادہ پریشان تھے۔ اب تو ملازمت سے بہت بہتر پرنٹنگ کا کاروبار شروع ہوکر مستحکم بھی ہو گیا تو اس کو چھوڑنا چاہتے ہو، یہ کیا منطق ہے؟‘‘۔ زکریا بھائی کی پریشانی اپنی جگہ درست تھی۔ ان کو جہاں ہمارے بارے میں پریشانی تھی، وہیں وہ اس لئے بھی فکرمند تھے کہ ہمارے توسط سے ان کے پریس کو بہت زیادہ کام ملنے لگا تھا جو ان کے خیال میں اب بند ہونے جارہا تھا۔ لیکن ہمارا فیصلہ اٹل تھا۔ اس کا سبب ایک اور بھی تھا کہ اب کام کا حجم بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اس کو سنبھالنے کی ہمارے اندر صلاحیت نہیں تھی اور نہ ہی زکریا بھائی اپنی ایک پرنٹنگ مشین کے ساتھ وقت پر تمام آرڈر ز کی تکمیل کر پاتے تھے۔ اس کا نتیجہ کلائنٹس کے ساتھ وعدہ خلافیوں کی صورت میں سامنے آرہا تھا جس سے ہمیں سخت تکلیف ہو رہی تھی۔
کام کی وسعت اور مارکیٹ میں ساکھ کا اندازہ اس ایک بات سے لگا لیں کہ کاغذی بازار سے پچاس پچاس ہزار روپے کا کاغذ ادھار ملنے لگ گیا تھا۔ اس سب کے باوجود اس کاروبار کو بند کرنے کا فیصلہ صرف اس بنا پر تھا کہ یونیورسٹی میں کسی طرح داخلہ لیا جائے اور اعلیٰ تعلیم مکمل کرلی جائے۔ اس کام کو حتمی طور پر بند کرنے میں بھی چند ماہ لگ گئے۔ جو کام ادھورے تھے ان کو مکمل کیا گیا۔ جن جگہوں سے بلوں کی ادائیگی باقی تھی وہ وصول کی گئی اور پیپر مارکیٹ میں جو ادھار تھا، اس کو ادا کیا گیا۔ جدید خطاطی کا ادارہ بھی اپنے انجام کو پہنچا اور انجمن ترقی اردو کے منیجر سعدی صاحب سے پرنٹنگ کا جو معاہدہ کیا تھا، وہ بھی اختتام پذیر ہوا۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ اگر یہ چلتا رہتا اور جما جمایا پرنٹنگ کا کام ختم نہ کرتے تو وہ وسیع ہو کر کیا شکل اختیار کر چکا ہوتا؟ لیکن اللہ کے کام اللہ ہی جانے۔ اسے کچھ ہی منظور تھا جو ہو کر رہا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا وہی ہے جو اللہ نے اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اب اتنی رقم جمع ہو چکی تھی کہ ایم اے میں داخلہ لینے کے بعد کم از کم چھ ماہ تک گھر، کھانے پینے اور تعلیم کے اخراجات پورے ہو سکتے تھے۔ حالانکہ ہم اس کاروبار کے دوران گھر والوں کو بھی معقول رقم بھیجتے رہے تھے۔ پس انداز کی گئی رقم کی وجہ سے ہمیں اپنی تعلیم مکمل کرنے تک ملازمت یا روزگار کی فکر نہیں کرنا پڑی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭٭