امت رپورٹ: پہلی قسط
خواجہ سرائوں کی دو بڑی نمائندہ تنظیمیں ٹرانس جینڈر ایکٹ کی مخالف ہیں۔ بلکہ انہوں نے اس قانون کوغیر شرعی قرار دیا ہے۔ تاہم بدقسمتی سے پارلیمنٹ سے لے کر ٹرانس جینڈر بل سے متعلق بلائے جانے والے ہر اجلاس سے ان تنظیموں کے نمائندوں کو دور رکھا گیا۔ جو ملک کے ہزاروں خواجہ سرائوں کی حقیقی نمائندہ ہیں۔ ان تنظیموں میں سے ایک تنظیم ’’شی میل رائٹس آف پاکستان‘‘ ہے۔ جو خواجہ سرائوں کو حقوق دلانے کی خاطر اٹھارہ برس پہلے بنائی گئی تھی اور اس کی سربراہ الماس بوبی ہیں۔ دوسری تنظیم ’’شی میل فنڈامینٹل رائٹس‘‘ کی صدر ندیم کشش دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور نون لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے خلاف میدان میں اتری تھیں۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ خواجہ سرائوں کے حقوق کی تحفظ کے نام پر بنائے جانے والے قانون کا اصل مقصد ملک میں ہم جنس پرستی کے ہمنوا ایل جی بی ٹی گروپ کو فروغ اور تحفظ دینا ہے۔ ٹرانس جینڈر بل کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں دائر پٹیشنز میں الماس بوبی، فریق ہیں۔ جبکہ ندیم کشش سوشل میڈیا اور اپنے یوٹیوب چینل پر ٹرانس جینڈر بل کے اصل حقائق کو بے نقاب کر رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنی سفارشات میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ دو ہزار اٹھارہ کی متعدد شقوں کو غیر شرعی قرار دے چکی ہے۔ جبکہ یہ معاملہ اس وقت وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت ہے اور اس کی اگلی سماعت کل منگل کو ہوگی۔
دو ہزار اٹھارہ میں جب سینیٹ اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ بل پیش کیا گیا تو اس پر بحث کے لئے بظاہر خواجہ سرائوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ تاہم یہ زیادہ تر وہ چہرے تھے۔ جو ایل جی بی ٹی کے حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے این جی اوز کھول رکھی ہیں اور بیرون ملک سے بھاری فنڈنگ حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں حقیقی خواجہ سرائوں کے دو اہم ناموں کو اس بحث میں حصہ لینے کی دانستہ اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں الماس بوبی سرفہرست ہیں۔ جن کی تنظیم ’’شی میل رائٹس آف پاکستان‘‘ کے دس ہزار سے زائد خواجہ سرا رکن ہیں۔ اسی طرح خواجہ سرائوں کی ایک اور نمایاں تنظیم ’’شی میل فنڈامینٹل رائٹس‘‘ کی صدر ندیم کشش کو بھی مدعو نہیں کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ دونوں ٹرانس جینڈر بل کے پیچھے چھپے اصل حقائق سے واقف تھیں۔ اس لئے بل کی سخت مخالفت کر رہی تھیں۔
قصہ مختصر نون لیگی حکومت کے آخری دنوں میں جلد بازی میں پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی سے اس بل کو منظور کرا کے افراتفری میں قانون بنا دیا گیا۔ بعد ازاں تحریک انصاف کی حکومت آگئی۔ اس قانون کی سب سے قابل اعتراض شق یہ ہے کہ کوئی بھی مرد اگر یہ محسوس کرے کہ وہ عورت ہے یا کسی عورت میں یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ وہ مرد ہے تو وہ اپنی پیدائشی صنف یا جنس نادرا جاکر تبدیل کرا سکتی ہے۔ اسے قانون میں Self Perceived Identity کا نام دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ جن میں کہا گیا ہے کہ ’’خواجہ سرائوں کا قانون نئے سماجی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ اور مجموعی طور پر ایکٹ میں کئی دفعات شرعی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں‘‘۔
اس قانون کے بارے میں روایتی اور سوشل میڈیا پر بھی بہت کچھ آچکا ہے۔ لہٰذا اس کی تفصیل میں جانے کی بجائے یہ ان کہی کہانی بیان کی جارہی ہے کہ ہزاروں خواجہ سرائوں کی نمائندہ الماس بوبی اس قانون کے خلاف میدان میں نکلیں تو انہیں کس نوعیت کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑا اور گزرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ روز ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے الماس بوبی نے بتایا ’’سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے موقع پر نام نہاد ٹرانس تنظیموں کے نمائندوں کو حصہ لینے کی اجازت دی گئی۔ جو این جی اوز کھول کر بیٹھی ہوئی ہیں اور انہیں بڑے پیمانے پر غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ لیکن مجھے نظر انداز کر دیا گیا۔ حالانکہ میں اس وقت حقیقی خواجہ سرائوں کی سب سے بڑی تنظیم کی سربراہ ہوں۔ لیکن چونکہ میں اس قانون کے پیچھے چھپے اصل ایجنڈے پر کھل کر بول رہی ہوں۔ لہٰذا مجھے نہ اس بل سے متعلق پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث میں مدعو کیا گیا۔ اور نہ اب اس سلسلے میں ہونے والے کسی اجلاس میں بلایا جاتا ہے۔
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد جب غیر شرعی اور متنازعہ ترین ٹرانس جینڈر بل کو دو ہزار اٹھارہ میں قانون کے طور پر نافذ کر دیا گیا تو میں نے ہار نہیں مانی۔ میں اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی۔ اس وقت ثاقب نثار چیف جسٹس پاکستان تھے۔ سماعت کے موقع پر وہاں دو لڑکے بھی میک اپ کرکے کھڑے تھے۔ جو خود کو ٹرانس جینڈر کہلواتے ہیں۔ میں نے چیف جسٹس ثاقب نثار کو خواجہ سرائوں کے حقوق سے متعلق سپریم کورٹ کا لیٹر دیا۔ جو دو ہزار نو میں میری دائر کردہ پٹیشن پر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جاری کیا تھا۔ ان دنوں خواجہ سرائوں کے شناختی کارڈ نہیں بنتے تھے۔ شناختی کارڈ میں خانے میں انہیں مرد لکھا جاتا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نادرا کے چیئرمین طارق ملک کو عدالت میں بلایا اورانہیں حکم دیا کہ خواجہ سرائوں کے خانے میں ’’خواجہ سرا‘‘ لکھا جائے۔
اسی طرح پہلے خواجہ سرائوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ انہیں گھر سے نکال دیا جاتا تھا۔ میری پٹیشن پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سرائوں کو وراثت میں حصہ دلایا۔ جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں کوٹہ بھی مختص کرایا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ملک بھر کے خواجہ سرائوں کو حقوق دینے کا حکم دیتے ہوئے مجھے فوکل پرسن مقرر کیا تھا۔ بتانے کا مقصد ہے کہ آج ٹرانس جینڈرز حقوق بل کے حوالے سے خود کو خواجہ سرائوں کے ہمدرد ظاہر کرنے والے ایل جی بی ٹی کے حامی جس طرح اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم ہیں۔ ان کے مقاصد دوسرے ہیں۔ حقیقی خواجہ سرائوں کو حقوق دلانے میں ان کا رتی برابر کردار نہیں ۔ خواجہ سرائوں کو یہ حقوق میں نے کئی برس پہلے دلادیئے تھے۔ لہٰذا نام نہاد ٹرانس جینڈرز پروٹیکشن بل کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار کو جب میں نے یہ سب کچھ بتایا اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے لیٹر سمیت پوری فائل انہیں دی تو انہوں نے فائل اٹھاکر پھینک دی اور برہمی کے ساتھ کہا کہ یہ سب کچھ پرانا ہو چکا ہے۔ وہ یہ سیاست نہیں ہونے دیں گے۔ اس موقع پر خود کو ٹرانس جینڈر کہلوانے والے وہ لڑکے جو میک اپ کرکے کھڑے تھے۔ انہوں نے صورتحال کو پوری طرح انجوائے کیا۔ کیونکہ خود ساختہ ٹرانس جینڈرز کے سامنے ایک خواجہ سرا کی بے عزتی ہو رہی تھی۔ لہٰذا ان کا خوش ہونا تو بنتا تھا۔ اس روز صبح نو بجے سپریم کورٹ میں پہلی سماعت میری ہی تھی۔ خیر چیف جسٹس ثاقب نثار کے رویے پر افسردہ ہوکر میں عدالت سے باہر نکل آئی۔ میں نے سوچا کہ عدالت نے تو بات سننے سے انکار کر دیا ہے۔ اب پریس کانفرنس کرنی چاہیے۔ میں نے پندرہ ہزار روپے میں ہال بک کرایا۔ پریس کانفرنس کے موقع پر تقریباً سارا پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا موجود تھا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے میں کھل کر بولی کہ یہ پاکستانی معاشرے میں ہم جنس پرستی اور دیگر بگاڑ پیدا کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اور ایک غیر ملکی ایجنڈا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ دوسرے روز کسی ڈمی اخبار یا گمنام چینل پر بھی میری پریس کانفرنس کے بارے میں دو سطریں تک نہیں چلیں۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ اس ٹرانس جینڈر ایکٹ کے پیچھے کتنی مضبوط لابی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل میری گفتگو یا پریس کانفرنس کو ملکی و غیر ملکی میڈیا نمایاں طور پر نشر کیا کرتے تھے۔عدالت میں رسوائی اور پھر پریس کانفرنس سے میڈیا کی بے اعتنائی سے دلبرداشتہ ہوکر میں گھر میں بیٹھ گئی۔ لیکن پھر چند دنوں بعد میں نے دوبارہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف اپنی برادری کے ساتھ مل کر مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ نتیجہ پھر بھی کچھ نہیں نکلا‘‘۔
الماس بوبی مزید بتاتی ہیں ’’کچھ عرصے بعد میں حج کرنے چلی گئی۔ یہ دو ہزار انیس کی بات ہے۔ میں نے اپنے تمام گیٹ اپ ختم کر دیئے تھے۔ پرانی زندگی کو خیر باد کہہ کر پنج وقتہ نماز شروع کی اور اب بھی پڑھ رہی ہوں۔ حج کے بعد واپس آکر میں سکون سے بیٹھی تھی۔ گزشتہ برس سینیٹر مشتاق احمد نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف سینیٹ میں ترامیم پیش کیں تو تب بھی میں اس معاملے سے لاتعلق رہی۔ لیکن جب سینیٹر مشتاق احمد اور اوریا مقبول جان نے اس متنازعہ قانون کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا تو میں نے بھی اس کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلی سماعت پر میں عدالت میں حاضر ہوچکی ہوں اور معزز بنچ کے سامنے میں نے اپنا موقف بھی پیش کیا‘‘۔
اس سوال پر کہ سماعت کے موقع پر آپ نے کیا موقف بیان کیا اور یہ کہ وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کا رویہ کیسا رہا؟ الماس بوبی کا کہنا تھا ’’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کے رویے کا فرق میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔ پٹیشن سننے والا یہ بنچ دو رکنی باریش ججوں پر مشتمل ہے۔ جو بہت نفیس، نرم خو اور مہذب لب و لہجے میں بات کرتے ہیں۔ پہلی سماعت پر انہوں نے مجھے بولنے کا پورا موقع دیا۔ پھر کہا کہ اگلی سماعت پر تفصیل سے اپنا موقف لکھ کے لائیں۔ اب میں اٹھارہ اکتوبر کو اگلی سماعت کے موقع پر تحریری بیان لے کر جائوں گی‘‘۔ (جاری ہے)