محمد قاسم:
افغان وزارت دفاع کے زیرانتظام فوجی تربیت کے دوران پہلی بار فدائی دستوں کی پریڈ ہوئی ہے۔ جس پر طالبان مخالف عناصر سمیت امریکہ و یورپی دنیا خوف میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ’’امت‘‘ کو افغان وزارت دفاع کے ذرائع نے بتایا کہ طالبان کے کابل فتح کے بعد فدائی دستوں کی تربیت عارضی طور پر روک دی گئی تھی اور فدائی حملہ آوروں کو عام فوجی دستوں میں ضم کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب ایک سال بعد ان دستوں کو ایک مستقل فوجی یونٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق تین روز قبل افغانستان میں ایک سالہ تربیت مکمل کرنے والے فوجی دستوں کے مختلف مقامات پر تعارفی پروگرام منعقد کیے گئے تھے۔ جس سے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب اور دیگر عہدیداروں نے خطاب کیا۔ جبکہ بعض مقامات پر آرمی چیف قاری فصیح الدین مصلح نے بھی خطاب کیا۔ تاہم ذرائع کے مطابق افغانستان کے ایک نامعلوم مقام پر 400 افراد پر مشتمل فدائی مجاہدین کے دستے نے پریڈ کی اور اس موقع پر افغان فوجی حکام بھی موجود تھے۔ تاہم ماسٹر ٹرینر اور اعلیٰ حکام کو تقریب میں نہیں دکھایا گیا۔ سفید وردی میں ملبوس فدائی مجاہدین نے پریڈ کے ساتھ جوڈوکراٹے کا بھی مظاہرہ کیا۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ طالبان کی صفوں میں فدائی حملہ آوروں کو خصوصی اہمیت اور عزت دی جاتی ہے۔ ماضی میں فدائی حملے کرنے والے طالبان مجاہدین کا پورا ریکارڈ مرتب کیا گیا ہے اور ان کے خاندانوں کو بھی خصوصی مراعات دی جارہی ہیں۔ پریڈ کے موقع پر طالبان کے میڈیا گروپ الحجرہ اور منبع الجہاد نے کئی فدائی حملہ آوروں کی ناٹو اور امریکی فوج کے خلاف شہادت کے بعد تصاویر جاری کی ہیں۔ جس میں طالبان کے موجودہ امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے صاحبزادے عبدالرحمان کی تصویر بھی ہے۔ عبدالرحمان نے امریکی فوج کے خلاف قندھار میں خودکش حملہ کیا تھا۔ جس میں آٹھ امریکی فوجی مارے گئے تھے۔ وہ مدرسے سے فارغ التحصیل تھا۔ طالبان نے عبدالرحمان کی شہادت کو چھپایا تھا۔ تاہم اب طالبان نے اپنے رہنمائوں کے شہید بیٹوں کی تصاویر جاری کرنا شروع کر دی ہیں کہ افغان طالبان کے رہنما بھی قربانیاں دینے والوں میں شامل ہیں۔
دوسری جانب طالبان کے فدائی دستوں کی پریڈ سے امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جبکہ طالبان کے مخالفین بھی پریشان ہیں کہ طالبان نے فدائی حملہ آوروں پر مشتمل یونٹ تشکیل دیا ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ طالبان حکومت پوری دنیا میں واحد حکومت ہے۔ جس نے فدائی یونٹ بنانے کی اجازت دی ہے۔ جبکہ افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جس کے فوجی دستوں میں فدائی دستے شامل ہو گئے ہیں۔ افغان وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق فدائی یونٹ کے لیے انتخاب انتہائی سخت ہونے کے ساتھ انتہائی خفیہ ہوتا ہے۔ زیر تربیت مجاہدین کی شناخت کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا اور ان کا چہرہ تربیت کے دوران مکمل چھپایا جاتا ہے۔ جبکہ یونٹ میں ان کے نام بھی تبدیل کیے جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق فدائی یونٹ میں بھرتی ہونے والوں کے لیے دینی علم حاصل کرنا اور تقویٰ اختیار کرنا لازمی ہے۔ ان سے حلف اٹھایا جاتا ہے کہ وہ گھر والوں، دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ جبکہ تعیناتی عام حلقوں میں کی جائے گی اور انہیں مختلف گروپ میں تعینات کیا جائے گا۔ صرف بوقت ضرورت انہیں بلایا جائے گا۔ تربیت کے دوران امریکہ کے خلاف گزشتہ بیس برسوں میں فدائی حملے کرنے والے مجاہدین کے حوالے سے ان کی زندگی کے معاملات کو اسکرین پر دکھایا جاتا ہے۔ ان کی روانگی سے لے کر حملے تک فلم بندی کی جاتی ہے اور اسے دکھایا جاتا ہے۔ جس سے نئے تربیت لینے والوں کے جذبے کو مہمیز مل جاتی ہے۔ اہم ذرائع نے بتایا کہ اگر امریکہ سمیت دنیا طالبان حکومت کو تسلیم کر لیتے تو یہ نوبت نہ آتی۔ کیونکہ طالبان سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومت کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ اور یورپ اندرون خانہ سازش اور بغاوت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لہذا مستقبل میں اس طرح کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ان کے پاس ہزاروں فدائیوں کی موجودگی ضروری ہے۔