عمران پچاس سال سے ہمسایہ اور پیپلز پارٹی میری فیملی ہے- اعتزاز احسن۔فائل فوٹو
 عمران پچاس سال سے ہمسایہ اور پیپلز پارٹی میری فیملی ہے- اعتزاز احسن۔فائل فوٹو

اعتزاز احسن کے گھیرائو کا معاملہ سلجھانے کی کوششیں

نواز طاہر:
پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے خلاف ہونے والی پارٹی کی اب تک کی کارروائی کو مخصوص مقاصد سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے پارٹی کی طرف سے اظہارِ وجوہ کا کوئی نوٹس جاری یا موصول ہونے کی تصدیق بھی نہیں کی اور کہا ہے کہ ’میں پیپلز پارٹی میں ہوں اور رہوں گا۔ یہ میرا خاندان ہے۔ شریف فیملی کے مقدمات پر دیئے جانے والے موقف پر قائم ہوں اور سمجھتا ہوں کہ آصف علی زرداری کے خلاف نیب کے مقدمات کی ختم کرنے کی درخواست کے باوجود یہ مقدمات عدالتوں میں جائیں گے‘۔ یاد رہے کہ چودھری اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف مقدمات ایسے ہیں جیسے ہتھیلی پر لکھے ہوئے ہوں اور ان کی سزا واضح ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو پاکستان میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس بیان کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے اتحاد کے خلاف اور پارٹی پالیسی کے منافی قرار دیا۔ پی پی وسطی پنجاب نے چودھری اعتزاز احسن کی پارٹی کی بنیادی رکنیت معطل کر کے منسوخی کیلئے اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کرنے اور اتوار کو ان کے گھر کا گھیرائو کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اسی دوران پیپلز پارٹی میں صوبائی تنظیم کے ایکشن پر بھی غور کیا گیا۔

’امت‘ کے ذرائع کے مطابق چوہدری اعتزاز احسن کے خلاف انضباطی کارروائی کا معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ جس کے بعد انہوں نے پارٹی کے حوالے سے میڈیا کے سامنے اپنا موقف باقاعدہ طور پر بیان کیا اور واضح کیا کہ ان کے بارے میں آڈیو لیک کرنے والی لائبریری اب شاید متحرک نہیں۔ انہوں نے کہا ’’میرے بارے میں تو آج بھی یہ خبریں چل رہی ہیں کہ میں بنی گالا میں موجود ہوں اور پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شام ہونے کا اعلان کرنے والا ہوں۔ لیکن عمران خان اس وقت سرگودھا میں اور میں یہاں لاہور میں موجود ہوں۔ پیپلز پارٹی میرا خاندان ہے۔ میں اس سے کہیں باہر نہیں جارہا۔ جہاں تک میرا مقدمات کے حوالے سے موقف تھا، تو میں اب بھی کہتا ہوں کہ میں جیالوں سے بڑا جیالا ہوں۔ جنہیں میرے خلاف بھڑکایا جارہا ہے‘‘۔ ’’امت‘‘ کے اس استفسار پر کہ ان کے گھر کا محاصرہ کرنے والے جیالوں کو چائے پلائیں گے یا جوس؟ تو انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ تاہم ان کے قریبی ذرائع نے بعد میں بتایا کہ جب گھیرائو کیلئے آئیں گے تو دیکھیں گے۔ بعد ازاں ’’امت‘‘ کے استفسار پر پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے قائم مقام صدر رانا فاروق سعید نے بتایا کہ ابھی گھیرائو منسوخ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ جب ان سے شوکاز نوٹس کی کاپی طلب کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کاپی مرکز کو بھیج دی گئی ہے۔ جبکہ ایک ہی رکن کو دو زون کے صدور کی جانب سے ڈسپنلری کارروائی پر شوکاز نوٹس جاری کرنے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اعتزاز احسن نے جواب صرف مسکراہٹ میں دیا۔
دوسری جانب اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ مرکزی سطح پر چوہدری اعتزازاحسن کے گھر کے گھیرائو کا معاملہ رفع دفع کیا جا رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ یہ گھیرائو نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ خود اعتزاز احسن کا بھی ماننا ہے کہ ’’پارٹی چیئرمین کی طرف سے میرے بیان پر کوئی سخت گفتگو نہیں کی گئی۔ جہاں تک رانا فاروق کی بیانات کی بات ہے تو مجھے اس سطح پر نہیں آنا۔ مجھے دو مئی سنہ دو ہزار سات میں پرویز مشرف نے پیغام دیا تھا کہ میں چیف جسٹس کی گاڑی چلا کر لاہور نہ جائوں اور پیپلز پارٹی سے بھی استعفیٰ دیدوں۔ تو وزیراعظم شوکت عزیز کا استعفیٰ آجائے گا اور تم وزیر اعظم بن جائو گے۔ لیکن میں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ اختلاف رائے تو وکلا تحریک میں بھی آئے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وکلا کہتے تھے کہ پارٹی چھوڑ دو یا تحریک کی قیادت سے الگ ہوجائو، تو میں کہتا تھا کہ پارٹی نہیں چھوڑوں گا۔ تحریک سے الگ ہوجائوں گا۔ اس پر وہ کہتے تھے کہ تحریک آپ نے ہی چلانی ہے اور پھر میں نے قیادت کی۔ میں نے ہمیشہ بے باکی کے ساتھ جمہوری حق کے تحت اختلاف رائے کیا۔ جو پارٹی نے حق دیا ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اعتزاز کو نگران وزیر اعظم بنانے کیلئے عمران اور اعتزاز کی آڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ آڈیو ریکارڈنگ تو ایک ہی طرف سے آتی تھیں۔ ایک خاص لائبریرین تھیں آڈیو ریکارڈنگ کی۔ اور میرا حالیہ بیان کہ عمران ایک مہینے میں واپس آسکتا ہے۔ عمران اعتزاز گٹھ جوڑ کی یہ دلیل دی جاتی تھی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ یہ ایک ہی سانس میں کہتے ہیں کہ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جارہا ہے اور ایک ہی سانس میں کہتے ہیں کہ اسے پارٹی سے نکال دیا جائے۔ اگر ویسے ہی چھوڑ کر جارہا ہے تو اسے نکالنے کی زحمت کا فائدہ کیا ہے؟ میں بتانا چاہتا ہوں کہ عمران میرا پچاس سال سے ہمسایہ ہے۔ ہماری دیوار سانجھی ہے۔ دوست ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی میری فیملی ہے۔ لیکن میں اس قسم کے سیاسی اندازِ گفتگو میں یقین نہیں رکھتا۔ کسی سے سیاسی اختلاف ہو تو ایک دم جو برا بھلا کہنا چاہیں، شروع کردیں اور رانا ثناء اللہ کی زبان استعمال کرنا شروع کردیں۔ شائستگی رہنا چاہیے‘‘۔

آصف علی زرداری کیخلاف میگا کیسز میں نیب مقدمات ختم کرنے کی درخواست کے حوالے سے سوال کے جواب میں چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ’’آصف علی زرداری نے گیارہ بارہ سال قید کاٹی ہے اور ابھی نیب نے کہا ہے کہ اس کی کوئی شہادت نہیں ہے جو مقدمے کو سپورٹ کرسکے۔ بہرحال یہ سارا معاملہ عدالت میں جائے گا۔ ایسے ہی کیس ختم نہیں ہوتے‘‘۔ اس سوال پر کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں سے کس کے بیانیے کو پسند کرتے ہیں؟ ان کا جواب تھا ’’یہ کیا بات ہوئی۔ اگر میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔ لیکن آپ کی سوچ ہی غلط ہے تو اس میں پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی بات کیا ہے۔ میں واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ عمران خان میرا دوست ہے۔ میں اس کو ایک اچھا انسان سمجھتا ہوں۔ لیکن میں نہ پیپلز پارٹی چھوڑ سکتا ہوں۔ نہ چھوڑ رہا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے جیالے کو میرے خلاف بھڑکایا نہیں جاسکتا۔ عمران خان کی ایک دو چار تقریریں نکالی ہوئی ہیں۔ جو وہ کرتا ہے۔ جس میں اس بات سے شروع کرتا ہے کہ ’میرے ہمسائے اور دوست اعتزاز احسن نے مجھے کہا ہے کہ آصف زرداری کے ساتھ مصلحت کر۔ لیکن میں اس کیلئے تیار نہیں‘۔ درحقیقت ہم دوست ہمسائے کے اعتبار سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ میں نے ایک دن عمران خان سے کہا تھا کہ لہجہ آصف زرداری کا چنو۔ سیاست میں سیاسی لہجہ ہے۔ مگر وہ بات کیا سے کیا بن گئی‘‘۔