محمد قاسم:
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی نا اہلی کے خلاف وزیر اعلیٰ خیبر پختون سمیت صوبائی وزرا اور اہم عہدیداروں کے علاقوں میں عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مزید مظاہروں کو روک دیا گیا۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل قرار دینے سے24 گھنٹے قبل پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے لوگوں کو ایک پیغام کے ذریعے اپیل کی تھی کہ اگر فیصلہ عمران خان کے خلاف آگیا تو پورے ملک سے آنے اور جانے والے ٹریفک کو جام کرکے شہروں کو بلا ک کردیاجائے۔
اس حوالے سے تمام صوبائی وزرا، اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کو تاکید کردی گئی تھی ۔ لیکن جمعے کے رو ز جونہی فیصلہ آیا تو کارکن، وزرا ، وزیراعلی، اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں کے کال اور ان کی قیادت کرنے کی منتظر رہی۔ تاہم مراد سعید ، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا اور دیگر عہدیدار دیواروں اور پودوں کے سامنے سے صرف سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام نشرکرتے رہے کہ خان کیلیے نکلیں جس پر کارکنوں نے نکلنے سے گریز کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو توقع تھی کہ پورا صوبہ جام ہوجائے گا۔ لیکن ہر وزیر، ایم این اے، ایم پی اے نے آئندہ انتخابات سے قبل مقدمات سے بچنے کیلئے مشتعل کارکنوں کے ساتھ آنے گریز کیا۔ تحریک انصاف کے حکومت میں گزشتہ دس سال میں جن علاقوں مردان، صوابی، چارسدہ، پشاور، ڈی آئی خان، نوشہرہ اور سوات جو ترقیاتی کام کیے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں بڑے بڑے مظاہروں کی توقع تھی، لیکن ان اضلا ع میں چند درجن لوگ ہی سڑکوں پر نکلے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چیئرمین عمران خان کی جانب سے 24 گھنٹے قبل آگاہ کرنے کے باوجود ہر ایم پی اے اور ایم این اے اور وزرا اپنے اپنے علاقوں میں اپنے حامیوں کی تصاویر پی ٹی آئی سنٹرل میڈیا کو بھیجتے رہے، لیکن اضلاع کے ہیڈکوارٹرز میں ہونے والے مظاہرے بے یارو مدد گار تھے، جس کی وجہ سے لوگ نہیں نکلے کیونکہ ہر ایم این اے اور ایم پی ایز نے اپنے آبائی علاقوںمیں نمائشی مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بہت سے پارٹی ایم پی اے اور ایم این اے ایسے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ انہیں آئندہ انتخابات کیلئے شاید ٹکٹ نہ ملے، تو کیوں مفت میں دیگر پارٹی عہدیداروں یا متوقع امیداروں کیلئے لوگ اکھٹے کریں۔ اس سے پارٹی اندر عدم اتفاق کی نشاندہی ہورہی ہے ۔ دوسری جانب عمران خان نے رات نو بجے تک پورے ملک سے پارٹی مقامی عہدیداروں اور پھر یوتھ کے عہدیداروں سے جو معلومات حاصل کیں، ان کی روشنی میں احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔
پشاور صدر تحریک انصاف یوتھ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’امت‘‘ کو بتایاکہ ان کے کان پک چکے ہیں کال دینے کے اعلانات سنتے سنتے۔ اب کارکن مایوس ہے، اگر حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں تو پہلے کرلیتے لوگوں کا وقت ضائع کیاگیا۔ ان کاکہنا تھا کہ کارکن اس بات پر بھی مشتعل ہے کہ ٹکٹس اور عزیزوں کو نوازنے کیلئے وزیر اعلیٰ سے لیکر تمام وزرا اور ایم این ایز اگے ہیں، لیکن کارکنوں کو صرف مظاہرو ں اور پولیس کی مار کھانے کیلئے بلایا جاتاہے۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ خیبرپختون میں قابل افراد کی کمی ہے کہ پی اینڈ ڈی، وزارت خزانہ اور سوشل میڈیا کیلئے لوگ پنجاب سے بھرتی کئے گئے ہیں۔ پانچ فیصد لوگ بھی اس صوبے سے بھرتی نہیں ہیں۔ بڑے پراجیکٹس ہو یا دیگر مراعات ہوں، اس کیلئے پنجاب سے لوگ بلائیں اور احتجاج ہم سے کرائیں۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کے رہنما ممکنہ مظاہروں سے خوفزدہ تھے، لیکن جو مظاہرے ہوئے ہیں اس کے بعد یہ قوی امکان ہے کہ پی ڈی ایم حکومت مزید فیصلے لینے کی تیاری کررہی ہے اور آئندہ چند روز میں خیبرپختون کے گورنر کی تقرر بھی کی جائیگی کہ اگر عمران خان نے ممکنہ طور پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں تو گورنر کے ذریعے چند ماہ حکومت چلائی جائے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی گورنر کی موجودگی کی وجہ سے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے فیصلے سے تحریک انصاف پیچھے ہٹ گئی۔ کیونکہ پھر مجوزہ لانگ مارچ میں مشکل ہوتی اور یہ صورتحال خیبرپختون میں بھی ہوگی۔ اسلئے عمران خان نے اسمبلیوں کی تحلیل کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔