محمدقاسم:
تقریبا دس سال پاکستان تحریک انصاف کی خیبرپختون پر حکومت کرنے کے باوجود صوبائی حکومت ایک ماڈل صوبہ بنانے کے بجائے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کیلیے وفاق سے مدد لینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ماہ اکتوبر کی تنخواہیں وقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کو صوبے میں سخت سیاسی نقصان پہنچنے کاخدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
صوبائی حکومت گزشتہ ماہ بھی تقریباً ایک ہفتے کی تاخیر سے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے میں کامیاب ہوسکی اور وفاق کی جانب سے تقریبا انتیس ارب روپے ادائیگی کی گئی ۔ اب ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ممکنہ طور پر اپنے مجوزہ لانگ مارچ کا اعلان کرنے والے ہیں تو دوسری طرف عمران خان اور پی ٹی آئی کے اعلی قیادت کو اس لانگ مارچ میں سب سے زیادہ تعاون خیبرپختون حکومت سے ملنے کی توقع ہے۔ تاہم اس دوران صوبائی حکومت کے پاس فنڈز کی کمی نے پی ٹی آئی کو ایک دوراہے پر کھڑا کردیاہے۔ اگر صوبائی حکومت وفاق کے خلاف تحریک انصاف کو مدد فراہم کرے گی تو ممکن ہے کہ وفاق، سرکاری ملازمین اور انتظامی امور چلانے کیلئے فنڈز ہی فراہم نہ کرے جس کی وجہ سے صوبے میں سرکاری ملازمین کی جانب سے مظاہروں کا امکان ہے۔ جبکہ محکمہ صحت اور سیکورٹی سے منسلک اداروں کو بروقت ادائیگی صوبے میں امن وامان کیلیے ضروری ہے ۔
اس حوالے سے ذرائع کاکہناہے کہ خیبر پختون میں سرکاری ملازمین کو ستمبر کی طرح اکتور کی تنخواہ بھی تاخیر سے ملنے کا خدشہ پیداہوگیا ہے۔ صوبائی حکومت کے پاس پیسے نہ ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت اپنی ناکامی وفاق پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ جبکہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی صورت میں عمران خان کی تحریک کو شدید دھچکا لگنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ صوبائی محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق ستمبر کی تنخواہیں نو اکتوبر تک جاری کی گئیں تھیں۔ جبکہ ماہ اکتوبر کی تنخواہیں پندرہ نومبر سے پہلے جاری کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اے جی افس کے پاس اپنے کوئی فنڈز نہیں ہے۔ صوبائی وزارت خزانہ فنڈز جاری کرتی ہے اور صوبائی وزارت خزانہ فنڈز جاری کرے گی تو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہوسکے گی ۔ کیونکہ ایشین ترقیاتی بنک نے ابھی تک صوبائی حکومت کو قرضے کی منظوری نہیں دی۔ جبکہ صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کاکہناہے کہ صوبے کو اب تک وفاق سے اپنے فنڈ ز نہیںملے جس کی وجہ سے مشکلات ہیں۔ تاہم وہ رواں ہفتے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ ان کے مطابق خیبرپختون کا بڑامسئلہ این ایچ پی کا ہے۔ این ایچ پی فنڈ کے وفاقی معاہدے پر موجودہ وفاقی وزیر خزانہ کا ہی دستخط ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت لانگ مارچ کاحصہ نہ بنے۔ کیونکہ اس سے وفاق اور صوبے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوسکتاہے۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے ممکنہ طور تنخواہوں میں تاخیر کی خبروں سے سرکاری ملازمین میں تشویش پیداہوگئی ہے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر صوبائی حکومت کے خلاف سخت رویہ بھی اپنا جارہا ہے اور یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ سندھ اور پنجاب میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی صوبے میں دس سال حکومتی ماڈل میں تنخواہیں ادا کرنے کیلئے پیسے نہیں ہے ۔
انتخاب سے قبل صوبے کے مالی مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات میں مشکلات کاسامنا ہوسکتا ہے۔ جبکہ ایک اہم ذریعے نے بتایا کہ صوبائی حکومت اور خاص کر صوبائی وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا، وفاق اور صوبے کے درمیان ٹکراؤ پیداکرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ سرکاری ملازمین کا رخ وفاق کی طرف کردیاجائے اور وفاق کو اس کاذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ تاہم اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں صوبائی حکومتیں قرض بھی لے سکتی ہیں ۔
پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے قرض حاصل کرنے کی کوششیں شروع کردی ہے۔ تاہم بین الاقوامی اداروں سے قرضوں کی حصول میں وفاقی حکومت کی گارنٹی ضروری ہے اور وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو پہلے ہی اگاہ کرچکی ہے کہ صوبائی حکومتیں لانگ مارچوں اور وفاق پر حملہ اور ہونے سے دور رہیں۔ اگر صوبائی حکومتیں لانگ مارچ کا حصہ بنتی ہیں اور وفاق پر چڑھائی میں حصہ لیتی ہے تو پھران کو مالی طور پر مدد میں وفاقی حکومت تعاون نہیں کرے گی۔