فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسٹیل مل پیسہ نہیں کما رہی،اربوں کی سبسڈی دی جارہی؟ جسٹس اعجاز الاحسن

اسلام آباد، سپریم کورٹ نے اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس میں ملازمین کے مقدمات پر تین ماہ میں فیصلہ نہ کرنے پر رپورٹ طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے لیبر کورٹ کو ملازمین کے مقدمات پر تین ماہ میں فیصلہ نہ کرنے پر رپورٹ طلب کرلی۔

سپریم کورٹ نے وزارت پیٹرولیم، وزارت پرائیوٹائزیشن، وزارت انڈسٹری اینڈ پروڈکشن اور فنانس کو ایس ایس جی سی کے ساتھ معاملات حل کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے کہا کہ تمام وزارتوں کے سیکریٹری پندرہ روز میں بیٹھ ایس ای سی پی اور ایس ایس جی سی کے  ساتھ معاملات حل کریں۔

سماعت کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نواز قصوری نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تین مختلف رپورٹس دائر کی ہیں۔

سماعت کے دوران وکیل ملازمین نے کہا کہ سپریم کورٹ ملازمین کی اپیلوں پر فیصلہ سنا دے باقی از خود نوٹس میں چلتا رہے گا۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسٹیل مل ایک پیسہ بھی کمانہیں رہی ماہانہ ایک ارب کا نقصان ہو رہا ہے، ہر سال مل کو قائم رکھنے کیلئے اربوں کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔ 2015 میں اسٹیل مل مکمل بند ہے ایک ٹن پیدوار نہیں۔

لطیف کھوسہ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ سٹیل مل 250 ارب کی مقروض ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اپنا موقف بیان میں کرتے ہوئے کہا کہ لیبر کورٹ نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک فیصلہ نہیں کیا، معاملات کے حل کیلئے مختلف وزارتوں کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔

وکیل ملازمین نے عدالت سے کہا کہ مزدوروں کے بھی بنیادی حقوق ہیں، اسٹیل مل انتظامیہ کے خلاف 10 ارب کی انکوائری مکمل کرنے کی ہدایات دی جائیں، اسٹیل مل کو ڈبونے میں انتظامیہ کا ہاتھ ہے۔

اس حوالے سے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسٹیل مل کے مسائل حل ہو سکیں، پہلے حکومتی ادارے بیٹھ کر مسائل حل کر لیں پھر ملازمین کا کیس بھی سنیں گے۔

عدالت نے اسٹیل ملز ملازمین کی پروموشن سے متعلق کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔