لانگ مارچ سوالیہ نشان
 کپتان نے مشاورت کے بغیر لانگ مارچ دوبارہ جاری رکھنے کا اعلان کیا- ذرائع۔فائل فوٹو

اسلام آباد پرچڑھائی کیلیے پنجاب کی حکومتی مشینری بھی سرگرم

نواز طاہر:
تحریکِ انصاف کل جمعہ کو لاہور سے عمران خان کی قیادت میں اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کر رہی ہے۔ جس کیلئے پنجاب حکومت کے وزرا، مشیروں، ارکان اسمبلی، پارٹی عہدیداروں، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔ جبکہ اسلام آباد میں دس لاکھ افراد کے اجتماع کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ تاہم حتمی پلاننگ کیلئے ایک اہم اجلاس بدھ کی شام تک عمران خان کی صدارت میں جاری تھا۔ اس لانگ مارچ کو پی ٹی آئی کے نوجوان کارکنان ’’میلے‘‘ کا نام دے رہے ہیں اور اسی طرح کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ جبکہ اس میں سب سے زیادہ شرکت کی پنجاب سے توقع کی جارہی ہے۔ لاہور کے بعد لانگ مارچ کا سب سے بڑا اجتماع وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے آبائی شہر گجرات میں متوقع ہے۔ جہاں شرکا کا استقبال چودھری مونس الٰہی کریں گے۔ ذرائع کے مطابق لاہور سے راولپنڈی تک اور صوبے کے دوسرے حصوں سے لانگ مارچ میں شریک ہونے والوں کو جملہ سہولیات کی فراہمی کیلئے ڈی پی اوز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات جاری کی جا چکی ہیں۔ تاہم لاہور پولیس اور ضلعی انتظامیہ ٹریفک پلان آج جمعرات کو جاری کرے گی۔
اعلان کے مطابق جمعہ کو لانگ مارچ دن گیارہ بجے لاہور میں گلبرگ کی لبرٹی چوک سے شروع ہوگا۔ پہلے روز لانگ مارچ کے طے شدہ شیڈول کے مطابق لبرٹی مارکیٹ میں وزیر تعلیم ڈاکٹر مراد راس اور وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی جلسہ گرمائیں گے اور قافلوں کا استقبال کریں گے۔ گیارہ بجے عمران خان خطاب کریں گے۔ جس کے بعد لبرٹی مارکیٹ سے لانگ کے شرکا بارہ بجے گارڈن ٹائون کے مقام سے فیروز پور روڈ پر اچھرہ میں وزیر بلدیات میاں محمود الرشید کے استقبالیہ کمیپ پر رکیں گے۔ ایک بجے لانگ مارچ کے شرکا کا استقبال مزنگ چونگی چوک میں سینئر صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال کریں گے۔ اس کے بعد لانگ مارچ لٹن روڈ سے ہوتا ہوا جین مندر (بابری مسجد چوک) عبور کرتا ہوا دوپہر ایک بجے ایم اے او کالج چوک میں پہنچے گا۔ جہاں پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری میاں حماد اظہر لانگ مارچ کے شرکا کا استقبال کریں گے۔ اسی مقام پر جمعہ کی نماز ادا کی جائے گی۔ لوئر مال پر ایوانِ عدل کے سامنے پوسٹ ماسٹر جنرل (پی ایم جی) چوک میں تین بجے سہ پہر پی ٹی آئی کی صوبائی صدر و وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد لانگ مارچ کے شرکا اور قائدین کا استقبال کریں گی۔ یہاں سے جلوس داتا دربار کے سامنے راوی روڈ پر پی ٹی آئی کے مقامی صدر اصغر گجر کے استقبالی کیمپ میں رکے گا اور شام پانچ بجے لانگ مارچ آزادی چوک پہنچے گا۔ جہاں پی ٹی آئی کے رہنما یاسر گیلانی، مہر واجد اور ابرارالحق شرکا، کا استقبال کریں گے۔ اس کے بعد کا شیڈول تاحال جاری اجلاس میں طے کیا جانا باقی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق جلوس شاہدرہ چوک سے پہلے نیازی چوک میں بھی رکے گا اور پھر کچھ دیر کیلئے کالا شاہ کاکو، مریدکے، کھوڑی اور کامونکے رکتا ہوا گوجرانوالہ پہنچے گا۔ لاہور سے ملحقہ قصور، اوکاڑہ کے کارکنان لانگ مارچ میں شامل ہوںگے۔ اسی پٹی میں پاکپتن، ساہیوال، وہاڑی اور بہاولنگر کے اضلاع کے کارکنان پیر محل سے موٹر وے کے ذریعے گجرات لانگ مارچ کے مرکزی قافلے میں شامل ہوںگے۔ البتہ ڈیرہ غازی خان، راجن پور، سرگودھا، میانوالی اور مظفر گڑھ کے کارکنان کو راولپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس ضمن میں پنجاب کے وزیر خزانہ سردار محسن لغاری اور وزیر خوراک سردار حسنین دریشک بہادر نے شام کو اسمبلی کے اجلاس کے بعد بتایا کہ دور دراز کے کارکنان براہ راست اسلام آباد پہنچیں گے۔ ذرائع کے مطابق لانگ مارچ صرف دن کے اوقات میں کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مارچ کا پہلا مرحلہ یادگار چوک میں ختم ہوگا اور اگلا مرحلہ اگلے روز ہفتے کو یاد گار چوک سے شروع ہوگا اور گوجرانوالہ پر مکمل ہوگا۔ وہاں سے لانگ مارچ سیالکوٹ پہنچے گا اور یہاں قیام کرے گا اور پھر وہاں سے گجرات پہنچے گا۔ جہاں اس کا استقبال وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کریں گے۔ لاہور کے بعد اور اسلام آباد سے پہلے یہ سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔ گجرات کے بعد قافلہ جہلم میں قیام کرے گا اور وہاں سے جمعرات کو اسلام آباد پہنچے گا۔ تاہم حتمی لائحہ عمل کیلئے عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
لانگ مارچ میں خواتین کی شرکت اور انہیں ہلڑ بازوں سے بچانے کے حوالے سے انتظامات کے بارے میں پی ٹی آئی کی خواتین اراکین طلعت نقوی، زینب عمیر اور سعدیہ رعنا نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ جن، جن شہروں میں جہاں، جہاں لانگ مارچ کے شرکا بسیرا کریں گے یا رکیں گے۔ وہاں پر خواتین کے قیام کے لئے ’سیف ہائوس‘ دستیاب ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب کے اراکین اسمبلی کو فی کس چھ ہزار افراد لانگ مارچ میں لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جبکہ خواتین اراکین کو بھی دس سے بیس خواتین لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی سید یاور حسین بخاری اور وزیر ہائر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں کا اصرار ہے کہ یہ ’’میلہ‘‘ نہیں سیاسی لانگ مارچ ہی ہے۔ اور عمران خان نے جو کہا تھا کہ عوام اس لانگ مارچ سے ’انجوائے‘ کریںگے۔ اس سے مراد میلہ نہیں بلکہ عوامی خواہش کے مطابق جدوجہد کا جمہوری عمل ہے۔ جس میں انہیں پنجاب میں کوئی رکاوٹ اور مشکل نہیں ہوگی۔ اس لانگ مارچ کی تیاری ہم نے اپنے انتخابی حلقوں میں پہلے سے ہی کر رکھی ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی انتہا پسندی کی نفی کرتے ہوئے اس تاثر کو غلط قرار دیا اور بتایا کہ اشاعتی و نشریاتی ادارے معمول کے مطابق، مکمل آزادی سے کوریج کریں گے۔ کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ تاہم پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کے برعکس میڈیا کیلئے پارٹی کی سطح پر کوئی گاڑی وغیرہ فراہم نہیں کر رہی۔ ضلع میانوالی سے تعلق رکھنے والی قانون دان رکن اسمبلی زینب عمیر نے بتایا کہ لانگ مارچ کے شرکا شاہرائوں پر موجود بیت الخلا سمیت دیگر سہولتوں سے استفادہ کریں گے۔ اس کے علاوہ ضلعی انتظامیہ کو بھی انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ پنجاب حکومت پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ لانگ مارچ کے شرکا کو پولیس سیکورٹی فراہم کرے گی۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم عباسی کے مطابق جی ٹی روڈ سے ملحقہ اور راولپنڈی سے ملحقہ شہیروں کے اراکین کو دور دراز کے اضلاع سے تعلق رکھنے والے اراکین کے مقابلے میں فطری طور پر زیادہ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
دریں اثنا لانگ مارچ کے شرکا کو ہدایت دی گئی ہے کہ ایک بیگ میں چادر، پانی کی بوتل، بسکٹ کے پیکٹ/ ڈرائی فروٹس، سردرد، بخار، جسم درد، کھانسی، وومیٹنگ کی ٹیبلٹس، سنی پلاسٹ، رومال اور ٹشو پیپر، دھوپ کی عینک یا پی کیپ ساتھ رکھیں۔ موسم کے مطابق لباس پہنیں۔ چپل، سینڈل یا ڈریس شوز کے بجائے نرم جوگرز یا سنیکرز کو ترجیح دیں۔ ممکنہ بارش کے پیش نظر چھتری اور اپنی گاڑی میں اضافی فیول ضرور ساتھ رکھیں۔ اس کے علاوہ دیگر ہدایات میں کہا گیا ہے کہ جہاں رش ہو، وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ مثلاً کوئی آپ کے پائوں پر پیر رکھ سکتا ہے۔ یا آپ سے ٹکرا سکتا ہے۔ لڑائی جھگڑے سے گریز کریں۔ پارٹی قیادت کے اعلانات کو غور سے سنیں اور اس پر عمل کریں۔ حالات کے مطابق مارچ کا راستہ تبدیل کیا جاسکتا ہے یا اسے منسوخ اور ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ سبھی امکانات اپنے ذہن میں رکھیں۔