وزیر قانون کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے فوکل پرسن احمد جواد بھی مستعفی ہو گئے، وزیر اعظم شہباشریف کے فوکل پرسن احمد جواد نے استعفیٰ دے دیا۔ احمد جواد نے اپنے استعفی میں لکھا کہ سیاست میں کمائی کرنے نہیں آیا تھا، ارشد شریف کا کفن میلا ہونے سے پہلے ضمیر کی آواز پر استعفیٰ دیا ہے۔
آپ کی عزت افزائی کا شکریہ کہ آپ نے مجھے اپنا فوکل پرسن منتخب کیا، لیکن آپ کی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ آپ اعلی ترین عہدہ ضرور رکھتے ہیں لیکن حکومت کے تمام فیصلے تین مختلف جگہوں سے آتے ہیں، آپ کی صلاحیتوں کا معترف ہوں لیکن آپ کی مجبوریوں کے پیش نظر میں اپنا استعفی پیش کر رہا ہوں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں یہاں یہ وضاحت کر دوں میں نے اپنی ڈیوٹی کے دوران نا تو کوئی تنخواہ لی، نا کوئی گاڑی، نا کسی قسم کی کوئی اور سہولت یا رعایت لی ہے، اپنی پوری سیاسی زندگی میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں سے ایک پائی کا فائدہ نہیں لیا، ہمیشہ اپنی جیب پر انحصار کیا اور اپنے وسائل اور اپنے پیسے سے خلوص کے ساتھ جماعت کی مدد کی۔
احمد جواد نے اپنے استعفی میں کچھ سوالات بھی اٹھائے، جس ملک میں ناحق خون بہایا جائے اور ملک میں حقائق کبھی منظر عام پر نا آ سکیں؟ جس ملک کا حکمران چاہے عمران خان ہو یا آپ ہوں، بے بس ہو، لاچار ہو؟ جس ملک میں سچ موت کا پروانہ ہو، جھوٹ کامیابی کی کنجی ہو؟ جس ملک میں جھوٹ کا بیانیہ ترقی کا راستہ ہو اور اس کے خریدار معززین شہری ہوں، جس ملک میں ووٹ کو عزت دو جیسے نعرے اقتدار کے حصول تک محدود ہوں۔
اس ملک کی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے اور فیصلہ کی گھڑی آگئی ہے، اپنے ضمیر کی آواز سنیں، میں نے سچ کی تلاش میں اپنی زندگی کا قیمتی وقت اور سرمایہ لگایا اور ملک کی خاطر اپنا فرض ادا کیا، اس ملک کے ساتھ بڑے دھوکے ہوئے اور میں کسی دھوکے کا حصہ دار نہیں بنوں گا۔
ارشد شریف کے قتل کی انکوائری کا انجام بھی وہی ہو گا جو لیاقت علی خان اور بینظیر کے قتل کا ہوا، یہاں سچ کو کفن پہنانے کیلئے کمیشن بنتے ہیں، ایک اور سچ کو کفن پہنانے کی تیاری شروع ہو چکی، ایک حکمران کے طور قیامت کے روز جواب آپ کودینا پڑے گا، آپ اچھے آدمی ہیں، اس گناہ میں شامل نا ہوں اور استعفی دیکر اپنی آخرت سنوار لیں، یہ چند دن کی حکمرانی یا آخرت کی لامحدود زندگی، سودا بُرا نہیں ہے۔
اس ملک کو صرف سچ بچا سکتا ہے، نا جھوٹ، نا آئی ایم ایف، نا فوج، نا امریکہ، نا چین، نا سعودیہ اور نا آپ کی شب و روز محنت ، وزیراعظم صاحب میں پوری قوم سے اپیل کروں گا، سچ کے ساتھ کھڑے ہوں، اپنی انا، اپنے ذاتی فائدے اور اپنی سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر سچ کا ساتھ دیں، اس ملک کو حقیقی آزادی چاہیے، 75 سال کے بعد بھی ہم غلام ہیں،غلاموں کی عزت نہیں ہوتی، چڑھتے سورج جلد ڈوب جاتے ہیں، ان کی پوجا کا کوئی فائدہ نہیں۔
جب PTI تانگہ پارٹی تھی تو PTI میں شامل ہوا اور اُس وقت چھوڑا جب وہ حکومت میں تھی اورطاقت ور تھی
مسلم لیگ ن میں شامل ہوا جب وہ اپوزیشن میں اور کمزور تھی اورچھوڑا جب وہ حکومت میں اور طاقت ور تھی
میری سیاست میں سب سے بڑی خدمت یہی ہے کہ میں نے سیاست میں نئے اصول متعارف کروا دئیے pic.twitter.com/CB8ChbIg9v
— Ahmad Jawad (@AhmadJawadBTH) October 28, 2022
ارشد شریف نے ایک انسان کے طور پر ہم سب کی طرح بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن کسی کو اُس کی زندگی ختم کرنے کا اختیار نہیں اور جس نے بھی ایسا کیا، انشاللہ وہ اس دنیا اور آخرت میں جہنم رسید ہو گا، یہ میرا یقین ہے. یہ اہم ترین ہے کہ ارشد شریف کا خون رائیگاں نہیں جائے گا،ارشد شریف سیاست نہیں لیکن آزادی کی یادداشت ہے، اس ملک کیلئے اسے آخری یادداشت سمجھیں ،آخری یادداشت کو انگلش میں “Final Reminder“ کہتے ہیں اور یہ یادداشت قدرت کی طرف سے ہے۔
ارشد شریف نے ایک انسان کے طور پر ہم سب کی طرح بہت غلطیاں کی ہوں گی لیکن کسی کو اُس کی زندگی ختم کرنے کا اختیار نہیں اور جس نے بھی ایسا کیا،انشاللہ وہ اس دنیا اور آخرت میں جہنم رسید ہو گا،یہ میرا یقین ہے #ArshadSharif
— Ahmad Jawad (@AhmadJawadBTH) October 28, 2022
احمد جواد نے آخر میں لکھا کہ آپ کیلئے میرا مخلص پیغام یہ ہے کہ روایتی اور موروثی سیاست کا اب اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں اور یہ دونوں طرح کی سیاست آپ کے پاؤں کی زنجیریں ہیں جنہیں آپ خوشی خوشی پہنے ہوئے ہیں، یہ حقیقت ہے کہ ہر روز 17000 بچے 18 سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں اور اُسمیں 90 فیصد عمران خان کے نظریے پر کھڑے ہیں، اسے اب نا آپ روک سکتے ہیں اور نا کوئی ادارہ، اختلاف رائے اپنی جگہ، لیکن نئے انتخابات کا اعلان کر دینا چاہیے ورنہ بوٹوں کی چاپ سنائی دے رہی ہے، اس ملک کی عوام کو فیصلہ کرنے دیں، کہ اس ملک کو کون چلائے گا؟
میں نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن دونوں کو اُس وقت چھوڑا جب وہ حکومت میں تھے، دونوں کا ساتھ اُس وقت دیا جب وہ اپوزیشن میں تھے، اسلئے کہ میں سیاست میں کمائی کرنے نہیں بلکہ نظریے کی بنیاد پر آتا ہوں اور نظریہ کی بنیاد پر چھوڑتا ہوں۔