دیر تک کبوتر اڑنے کا آل پاکستان ریکارڈ 27 گھنٹے ہے۔فائل فوٹو
دیر تک کبوتر اڑنے کا آل پاکستان ریکارڈ 27 گھنٹے ہے۔فائل فوٹو

’’کراچی میں کبوتر بازی کا شوق پھر بڑھ گیا‘‘

اقبال اعوان:
کراچی میں ایک بار پھر کبوتر بازی کا شوق بڑھ گیا۔ جس کے باعث کبوتروں کے کاروبار میں تیزی آگئی ہے۔ آن لائن خرید و فروخت اور مقابلوں کے حوالے سے معلومات کی شیئرنگ بھی بڑھ چکی ہے۔ کراچی میں 4 سو سے زائد اقسام کے کبوتر پالے جارہے ہیں۔ جن کی قیمت 500 روپے جوڑی سے ایک لاکھ روپے جوڑی تک ہے۔ لیاقت آباد، اولڈ سٹی ایریا، لیاری کے بعض علاقے، شاہ فیصل کالونی، ملیر، بلدیہ، اورنگی ٹائون، کورنگی، محمود آباد، لانڈھی، ناظم آباد، سرجانی، نارتھ کراچی سمیت دیگرعلاقوں میں سہ پہر چار بجے کے بعد کبوتر بازی کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے۔ نوکری پیشہ افراد شام کے اوقات یا چھٹی کے روز شوق پورا کرتے ہیں۔ کبوتر مہنگے ہونے کے بعد دانہ، دوائیاں بھی مہنگی ہو چکی ہیں۔ اونچی اڑان اور دیر تک اڑنے والے کبوتروں کے مقابلے مئی جون میں ہوتے ہیں۔ جس کیلئے کبوتر بازی کے شوقین سال بھر تیاری کرتے ہیں۔ کراچی میں دیر تک کبوتر اڑنے کا ریکارڈ 18 گھنٹے ہے۔ جبکہ آل پاکستان ریکارڈ 27 گھنٹے اڑنے کا ہے۔ سیالکوٹی کبوتر، کوئٹہ کبوتر، قصوری کبوتر، گھاگھرا، ٹڈی، گولہ، لو کبوتر، فینسی کبوتر، موغلا کبوتر، رام پوری کبوتر اور دیگر کبوتر زیادہ پالے جارہے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں دن بدن مہنگائی بڑھنے کے بعد دیگر قدیم کھیل اور مشغلے ختم ہوتے جارہے ہیں اور موبائل فون کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد سے کبوتر بازی کا شوق ختم نہیں ہوا۔ خاص طور پر انڈیا سے آنے والے لوگ اس شوق کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بچے، بڑے، بوڑھے اس کھیل اور شوق کا حصہ ہیں۔ اب کبوتر مہنگا ہو چکا ہے۔ جبکہ دانہ پانی جہاں مہنگا ہوا ہے۔ وہیں دوائیاں بھی کئی گنا مہنگی ہو چکی ہیں۔ لیکن اب کراچی میں کبوتر بازی کا شوق دوبارہ زور پکڑ چکا ہے اور کبوتر بازی کے شوقین سوشل میڈیا پر خود کو متعارف کرا رہے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مہنگے کبوتروں کے خواص بتائے جا رہے ہیں اور زیادہ دیر تک اور اونچی اڑان کے حوالے سے مختلف دعوے کیے جا رہے ہیں۔ جبکہ آن لائن خرید و فروخت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چند برسوں میں کبوتروں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس وقت کبوتر کی جوڑی 2 سو کے بجائے 500 روپے سے شروع ہوتی ہے اور لگ بھگ ایک لاکھ روپے سے اوپر تک جا رہی ہے۔

کراچی میں پرندوں کی مارکیٹوں کی دکانوں میں جہاں کبوتر دیگر پرندوں کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں۔ وہیں فینسی طوطوں کے ساتھ یا الگ سے کبوتروں کی دکانیں بھی بن چکی ہیں۔ اتوار کو مختلف اقسام کے کبوتر شریف آباد، کریم آباد پل کے نیچے، صدر ایمپریس مارکیٹ، کورنگی ڈھائی نمبر، گرومندر مارکیٹ، شاہ فیصل کالونی نمبر 5، اورنگی نشان حیدر چوک کے قریب بازار میں فروخت ہوتے ہیں۔ یہاں پر چوری یا چھینے گئے کبوتر بھی زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ لوگ اونچی عمارتوں یا گھروں کی چھتوں پر بنے پنجروں میں جہاں کبوتر رکھتے ہیں۔ وہیں کبوتر کے اڈے (بڑا بانس لگا کر اوپر لکڑی کا چوکور خانوں والا اڈا بنایا جاتا ہے) لگائے گئے ہیں۔ جہاں سے کبوتر اڑتے ہیں۔ شام 4 بجے کے بعد سیٹیاں گونجنے، تختے بجانے، شور شرابہ شروع ہو جاتا ہے۔

اس دوران موجودہ جوان نسل دوسرے کے کبوتروں کو پکڑنے کے مختلف ٹوٹکے آزماتے ہیں اور اپنی چھت پر کبوتر پکڑ کر فروخت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جھگڑے بھی ہوتے ہیں۔ کراچی میں کبوتر بازی کے شوقین افراد کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ زیادہ تر کبوتروں میں کالا جوگیا، کالا دیسی گنڈا دار، بنارسی گھاگھرا، پینک فینٹل، فینی، لو کبوتر، سیالکوٹی کبوتر، قصوری کبوتر، ٹڈی کبوتر، سفید آنکھ والا کبوتر، کنگ کبوتر، وائٹ جارا کبوتر، وائٹ لکی کبوتر، لاکا کبوتر، چتری کبوتر، گولڈن کبوتر، اسپائی کبوتر، بلیک فینسی کبوتر، اورینجل لکا کبوتر، سنگل رائٹ کبوتر، لاہوری کبوتر، کوئٹہ ریسر کبوتر، بلیک امپیریل کبوتر، موڈنیا کبوتر، ڈران کبوتر، جوہے کبوتر، جوہے لاکھا کبوتر، ٹکڑی کبوتر، موغلا کبوتر، ریسنگ کبوترم، رام پوری کبوتر، گولا کبوتراوردیگر کبوتروں کی اقسام شامل ہیں۔
کبوتر بازی کے شوقین اسلم نے بتایا کہ مئی جون کے مہینے میں کبوتروں کی اونچی اور دیر تک اڑان کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اس سے دو ماہ قبل آن لائن رجسٹریشن فیس کا جمع کرنا اور دیگر قواعد و ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ مقابلے میں شامل کبوتروں پر الگ الگ رنگ کے نشان لگا کر اڑایا جاتا ہے۔ واپسی پر دوسرے کی چھت پر اترنا یا جلدی واپس آنے والے کو مقابلے سے نکال دیا جاتا ہے۔ اسلم نے کہا کہ کراچی میں کبوتر اڑنے کا 18 گھنٹے کا ریکارڈ ہے۔ جبکہ ملک بھر میں ریکارڈ جو آل پاکستان ریکارڈ کہلاتا ہے۔ 27 گھنٹے کا ہے۔

فینسی طوطوں اور کبوتروں کے تاجر محمد مجاہد کا کہنا تھا کہ فینسی طوطوں یا فینسی کبوتروں کا کاروبار 10 ہزار سے 50 ہزار میں شروع کیا جا سکتا ہے۔ شوقین افراد خرچہ کرتے ہیں۔ آج کل پرندوں، کبوتروں کا شوق بڑھ چکا ہے۔ ابراہیم حیدری کے سماجی کارکن اور کبوتروں کے شوقین کمال شاہ نے بتایا کہ انہوں نے لاکھوں روپے مالیت کے کبوتر رکھے ہیں۔ شام کو ان کو ٹائم دینا ہوتا ہے کہ یہ پرندے بھی وقت مانگتے ہیں۔ لیاقت آباد کے ایریا سی ون کے رہائشی محمد رفیق کا کہنا تھا کہ وہ کبوتروں کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں۔ کبوتروں کی خوراک، دوائیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ کبوتروں کی بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر کبوتر کو لقوہ ہو جائے تو آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں۔ گردن مڑ جاتی ہے اور کبوتر بخار میں رہ کر مر جاتا ہے۔ کبوتروں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور شوق بھی بڑھ چکا ہے۔ معاشی پریشانی کا شکار لوگ ان پرندوں کے ساتھ وقت گزار کر اپنا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور خرید و فروخت سے ان کی گزر اوقات بھی ہوجاتی ہے۔