امت رپورٹ/ نواز طاہر:
فیس سیونگ کی آس میں بھٹکتا، عمران خان کا لانگ مارچ کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تین روز گزرنے کے بعد چند ہزار افراد پر مشتمل یہ قافلہ لاہور سے بمشکل گوجرانوالہ ڈویژن کے سرحدی شہر تک پہنچ سکا ہے۔ یہ بھی کئی کلومیٹرز کی جمپ لگانے پر ممکن ہو سکا ہے۔ اس رفتار کے پیش نظر اس قافلے (جسے لانگ مارچ کا نام دیا گیا ہے) کے چار نومبر کو اسلام آباد پہنچنے کا امکان معدوم دکھائی دے رہا ہے۔ تاہم درمیان کے فاصلے میں مزید جمپ لگانے کی صورت میں ہی قافلہ مقررہ تاریخ پر منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے تین روز کے دوران دیکھنے میں آیا ہے۔ ان تین دنوں میں قافلے کے شرکا کی زیادہ سے زیادہ تعداد بارہ سے تیرہ ہزار تک رہی ہے۔ واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے لانگ مارچ میں لاکھوں لوگ لانے کا دعویٰ کیا تھا۔ دلچسپ امر ہے کہ پچھلے تین دنوں میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ عمران خان وقت پر لانگ مارچ کے مقام پر پہنچے ہوں۔ اب تک وہ اعلان کردہ وقت سے ڈھائی سے چار گھنٹے تاخیر سے لانگ مارچ کی قیادت کے لئے پہنچے ہیں۔ اس سے بھی قافلے کے شرکا میں خاصی مایوسی پائی جاتی ہے۔ یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ پچھلے تین روز سے ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب لانگ مارچ نے اپنے مقرر کردہ روٹ کو مکمل کیا ہو۔ لانگ مارچ کے تیسرے دن کا اختتام ایک خاتون رپورٹر کی المناک موت پر ہوا۔
عمران خان نے جمعہ اٹھائیس اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے لانگ مارچ کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ اور کہا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا چار نومبر کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ یوں لانگ مارچ نے آٹھ روز بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ہے۔ لاہور سے اسلام آباد کا بذریعہ سڑک سفر موٹر وے سے چار سے ساڑھے چار گھنٹے اور جی ٹی روڈ سے پانچ سے سوا پانچ گھنٹے کا ہے۔ تاہم بڑے جلوس یا لانگ مارچ کی صورت میں یہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ اڑتالیس گھنٹے لے سکتا ہے۔
لاہور سے اسلام آباد پہنچنے کے لئے آٹھ دن کا طویل وقفہ دینے سے متعلق پی ٹی آئی کی حکمت عملی سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ یہ مشورہ عمران خان کو پارٹی کے معتدل مزاج رہنمائوں نے دیا تھا۔ ان رہنمائوں کا خیال تھا کہ کچھوے کی رفتار سے قافلے کو چلانے کے دوران بیک ڈور چینل کھلا رکھا جائے گا۔ اور کارواں کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالا جاسکے گا۔ اور یوں بغیر پلاننگ اور عجلت میں شروع کئے گئے لانگ مارچ کو ختم کرنے کے لئے فیس سیونگ مل سکتی ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی کے معتدل مزاج رہنمائوں کی خواہش کے برعکس عمران خان نے قبل از وقت لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا۔ کیونکہ خیال تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے واقعہ پر لوگ کافی جذباتی ہیں اوران عوامی جذبات کو لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے (اس کا ذکر سب سے پہلے ’’امت‘‘ کے ان ہی صفحات پر کیا گیا تھا)۔ تاہم لانگ مارچ سے متعلق اب تک کی صورتحال نے چیئرمین پی ٹی آئی کے اس اندازے کو غلط ثابت کیا ہے۔ تمام تر سرکاری مشینری کے استعمال کے باوجود شرکا کی مایوس کن تعداد کے سبب فی الحال یہ ڈیڈ فلاپ شو ثابت ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ تاحال پس پردہ بات چیت کا سلسلہ بھی شروع نہیں ہو سکا ہے۔ چونکہ بیک ڈور چینل بند نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا پارٹی کے معتدل مزاج رہنمائوں کو آس ہے کہ قافلے کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل شاید فیس سیونگ کا کوئی راستہ نکل آئے۔ ان رہنمائوں کے خیال میں قافلہ اگر اسلام آباد پہنچ بھی جاتا ہے تو تب بھی بیک گرائونڈ بات چیت کا دروازہ کھلا رہے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ لانگ مارچ میں مطلوبہ تعداد میں لوگوں کے شریک نہ ہونے پر عمران خان پریشان ہیں اور وہ ’’کیچ 22‘‘ (انتہائی مشکل) والی صورتحال میں پھنس گئے ہیں کہ بغیر کسی مناسب جواز کے لانگ مارچ ختم نہیں کر سکتے اور شرکا کی مایوس کن تعداد کے ساتھ آگے بڑھنا بے مقصد ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں ان کے پاس واحد راستہ حکومت سے بات چیت شروع کرنا ہے۔ تاکہ ناکام لانگ مارچ کو ختم کرنے کا جواز مل سکے۔ دیکھنا ہے کہ یہ فیس سیونگ کپتان کو ملتی ہے یا نہیں۔ ایسے میں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے پس پردہ بات چیت شروع ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
لبرٹی چوک سے اٹھائیس اکتوبر کو صبح گیارہ بجے لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان ہوا تھا۔ تاہم عمران خان تقریباً پونے پانچ گھنٹے کی تاخیر سے پونے چار بجے کے قریب وہاں پہنچے۔ لانگ مارچ لبرٹی چوک سے محض بارہ تیرہ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے مقررہ مقام شاہدرہ سے پہلے ہی داتا دربار پر اختتام پذیر ہوگیا تھا۔ ہفتے کو دوسرے روز بھی عمران خان ساڑھے تین گھنٹے کی تاخیر سے لانگ مارچ کے مقام پر پہنچے۔ جبکہ داتا دربار سے کارواں دوبارہ شروع کرنے کے بجائے براہ راست شاہدرہ سے شروع کیا گیا۔ یوں پانچ سے ساڑھے پانچ کلومیٹر فاصلے کی جمپ لگائی گئی۔ کارواں کو کامونکی پہنچنا تھا۔ تاہم یہ مقررہ مقام سے پہلے رچنا ٹائون پر اختتام پذیر ہوگیا۔ تیسرے روز اتوار کو بھی عمران خان پونے تین گھنٹے کی تاخیر سے مقررہ مقام پر پہنچے۔ جبکہ مزید بیس کلومیٹر فاصلے کی جمپ لگاتے ہوئے لانگ مارچ کا آغاز رچنا ٹائون کے بجائے مریدکے سے کیا گیا۔ یہ سفر بھی مقررہ مقام سے قبل گوجرانوالہ ڈویژن کے سرحدی شہر سادھوکی میں جاکر ختم ہوگیا۔ یہاں سے گوجرانوالہ شہر اب بھی بیس سے بائیس کلومیٹر دور ہے۔
مسلسل تین دن سے پی ٹی آئی کے قافلے کے ساتھ سفر کرنے والے نمائندہ ’’امت‘‘ کے بقول پاکستان تحریک انصاف کا لانگ مارچ جی ٹی روڈ پر سادھوکی کے مقام پر خون آلود ہونے پر اتوار کو تیسرے روز بھی اپنا روٹ مکمل نہ کر سکا۔ عمران خان کے کنٹینر کے تلے کچل کر جاں بحق ہونے والی نجی ٹی وی چینل سے وابستہ خاتون صحافی صدف نعیم کی میت کو سیکورٹی اہلکاروں نے حصار میں لے لیا اور جبراً کیمرے بند کروا دیئے۔ بعد ازاں سیکورٹی اہلکاروں نے ایک نجی ٹی وی چینل کی گاڑی کی ونڈ اسکرین بھی توڑ دی۔
اتوار کے روز مرید کے میں قومی اسمبلی کے رکن بریگیڈیئر (ر) راحت امان اللہ، ارکان صوبائی اسمبلی عمر آفتاب ڈھلون اور خرم اعجاز چٹھہ کے کیمپ سے پرانا نانگواڑہ سے لانگ مارچ کا آغاز ہوا۔ اس وقت سات سے آٹھ ہزار افراد موجود تھے۔ قافلہ روانہ ہوتے ہی گردونواح کے علاقوں سے آئے عوام نے واپس لوٹنے کی کوشش کی تو لاہور کی جانب راستہ کھول دیا گیا۔ جبکہ مرید کے نارووال روڈ اور مرید کے شیخوپورہ روڈ بلاک کر دیا گیا۔ تاہم قافلے کی روانگی کے بعد یہ راستے کھول دیئے گئے۔ مرید کے نارووال چوک پر اوورہیڈ برج پر سیکورٹی کے پیش نظر شہریوں کا داخلہ بند کردیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد سڑک کے اطراف دو گھنٹے سے زائد پھنسی رہی۔ جن میں معمر افراد، خواتین اور بچے شامل تھے۔ اوورہیڈ برج پر تعینات انسپکٹر ذکا نے نمائندہ ’’امت‘‘ کو بتایا کہ انہیں سیکورٹی کے حوالے سے سخت ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ جبکہ اس ایک کلومیٹر کے فاصلے پر لانگ مارچ کے نکتہ آغاز پر اوورہیڈ برج عوام کے لئے کھلا رکھا گیا۔ سیکورٹی کی نئی ہدایات کے بارے میں انسپکٹر ذکا کا کہنا تھا کہ بندوقوں والی آڈیو لیک ہونے کے بعد سیکورٹی سخت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما امین گنڈا پور کی اسلحہ کے حوالے سے ایک آڈیو لیک ہوئی تھی۔ لانگ مارچ کے ساتھ اوکاڑہ، قصور، لاہور، شیخوپورہ، نارووال، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ پولیس و انتظامیہ کی گاڑیاں موجود تھیں۔ جبکہ پہلی بار محکمہ داخلہ کے مشیر عمر سرفراز چیمہ کے حکم پر لانگ مارچ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی۔
قافلہ مریدکے بازار کے سامنے سے روانہ ہوا تو اس کا حجم پون کلومیٹر تھا۔ لیکن مرید کے، نارووال چوک پر یہ تعداد کم ہوگئی اور گوجرانوالہ سے مریدکے کی جانب آنے والا ٹریفک ننگل ساہداں کے مقام پر روک دیا گیا۔ اس بھیڑ میں بینڈ باجے سمیت جانے والی ایک بارات پھنس گئی۔ اس موقع پر دولہے نے شدید جذباتی انداز میں لانگ مارچ کی قیادت اور شرکا کو کوسا۔ قبل ازیں سابق وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری مقامی لوگوں سے تکرار کرکے واپس لوٹ گئیں۔ انہیں کنٹینرز کے ساتھ جبری کھڑے کئے گئے ٹرک ڈرائیوروں نے گھیر لیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑیوں کے کاغذات پولیس اور انتظامیہ کے قبضے میں ہیں۔ جب وہ نہیں گزرسکتے تو آپ کیسے گزر سکتی ہیں۔ تاہم وہاں سے عمران خان کا قافلہ گزرتے ہی یہ کنٹینرز ہٹالئے گئے اور قافلے کے شرکا سڑکوں کے دونوں اطراف پھیل گئے۔ جس سے گوجرانوالہ سے لاہور کی جانب جانے والا ٹریفک مکمل طور پر بند ہوگیا۔ مریدکے کے بعد قافلے کا پہلا استقبال سادھوکی کے مقام پر سابق وفاقی وزیر رانا نذیر سمیت پی ٹی آئی کے رہنمائوں گلفام ورک اور احمد بلال ورک کی طرف سے کیا گیا۔ اسی مقام پرعمران خان نے مغرب کی اذان تک خطاب کیا اور قافلے کے شرکا نے نماز ادا کی۔
تیسرے روز قافلے میں مرکزی کنٹینر پرعمران خان کے ساتھ دیگر رہنما کندھا ملاکر کھڑے رہے۔ سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار بھی عقب میں ایک سائیڈ پر خاموش کھڑے دکھائی دیئے۔ مریدکے اور ننگل ساہداں کے درمیان انہیں سڑک کے اطراف کھڑے کارکنوں نے پینے کے لئے پانی کی بوتل پھینکی۔ جسے وہ دبوچ نہ سکے۔ جی ٹی روڈ پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک تعداد ڈیڑھ کلومیٹر تک پیدل چلتی رہی اور ٹرک پر چڑھنے کی منتظر رہی۔ بعد ازاں ان میں سے کچھ کو ٹرک پر سوار ہونے کی اجازت دیدی گئی۔ سادھوکی میں دو طرفہ ٹریفک بند ہونے کی وجہ سے قافلے میں مسافر کوچ بھی پھنس گئی اور بعض مسافر کمسن بچے اٹھائے بس سے اتر کر پیدل چل پڑے۔ میرپورآزاد کشمیر سے شاہدرہ میں اپنے سسرال سے بیوی اور تین کمسن بچوں کے ساتھ پیدل چلتے مسافر نے نمائندہ ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بس والے نے تین سو فی کس کے حساب سے کرایہ بھی لے لیا ہے اور قافلے میں پھنس جانے کے سبب انہیں بس سے اتار دیا۔ اسی طرح کامونکی جانے والے بس کے مسافر بھی سادھوکی اتر کر پیدل چلنے پر مجبور ہوگئے۔ دوران سفر وہ لانگ مارچ کے قائدین کو برا بھلا کہتے رہے۔
جب نمائندہ ’’امت‘‘ نے پی ٹی آئی کی خواتین ارکان اسمبلی طلعت نقوی اور سیمابیہ طاہر سے راستے بند کرنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ کے منتظمین کی پلاننگ میں راستے بند کرنا شامل نہیں تھا۔ معلوم نہیں راستے کس کے کہنے پر اور کیوں بند کئے گئے ہیں۔ سادھوکی کے مقام پر مغرب کے وقت قافلہ چلنے لگا تو نجی ٹی وی چینل 5 اور روزنامہ خبریں کی لیڈی رپورٹر صدف نعیم کو عمران خان کے کنٹینر میں سوار ہونے کی اجازت کا اشارہ دیا گیا۔ کنٹینر کے گیٹ پر ایک اہلکار نے ان کا ہاتھ تھام کر اوپر کی جانب کھینچا تو ان کا پائوں سلپ ہوگیا۔ وہ پہلے کچھ لمحے لٹکی رہیں۔ پھر گرگئیں اور کنٹینر کے پہیے تلے کچلی گئیں۔ اس مرحلے پر صحافیوں کو سیکورٹی اہلکاروں نے تصاویر اور فوٹیج بنانے سے جبراً روک دیا۔ بعد ازاں جی ٹی روڈ پر سادھوکی کے مقام پر خاتون صحافی کی المناک موت کے سبب دھرنے کے اختتام کا اعلان کر دیا گیا۔ یوں تیسرے روز بھی لانگ مارچ اپنا روٹ مکمل نہ کرسکا۔