نمائندہ امت:
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈاپور کے دوست اسد فاروق خان نامی شخص کو گرفتارکرلیا ہے۔ جس سے تحقیقات میں ہوشربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ اسد فاروق اسلحہ کا اسمگلر بتایا جاتا ہے اور اس نے پورا ایک گینگ بنا رکھا ہے۔ جس کے روابط دو صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اسد فاروق، علی امین گنڈاپور کو غیر قانونی معاملات میں سہولت بھی فراہم کرتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں علی امین گنڈا پور کی ایک آڈیو کال لیک ہوئی۔ جس میں وہ اپنے ایک دوست (اسد فاروق خان) سے اسلحہ سے متعلق بات چیت کر رہے تھے اور بندقیں ساتھ لانے کی بھی بات چیت کی گئی۔ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ لانگ مارچ میں کشت و خون کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔
’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق کچھ روز قبل وفاقی حکومت کو ایک خفیہ رپورٹ موصول ہوئی۔ جس میں بتایا گیا تھاکہ لانگ میں چار گینگز موجود ہیں۔ جس میں ایک گینگ اسد فاروق خان کا شامل تھا۔ ان گینگز کو تیار کرنے والوں میں علی امین گنڈاپور، قاسم سوری اور شہریار آفریدی کے نام شامل ہیں۔ شہر یار آفریدی نے خیبرپختون سے لوگوں کو تیار کیا ہے۔ وفاقی پولیس کو موصول رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو سنگیں خون ریزی ہو سکتی ہے۔ گجرات، لاہور کے مضافات میں لوگوں کو اکٹھا کرلیا گیا ہے۔ جبکہ خیبرپختون میں یہ جتھے بڈھا بیر، پشاور، گجر گڑھی وغیرہ میں پہنچادئیے گئے ہیں۔
وفاقی پولیس کے ذرائع کے مطابق ’’اسد فاروق نامی شخص اسلحے کی اسمگلنگ کا بہت بڑا ڈیلر ہے۔ بظاہر علی امین گنڈا پور نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ اس شخص سے حفاظت کی غرض سے اسلحہ اور لوگوں کی بات کر رہا تھا۔ کیونکہ اس نے خود تسلیم کیا ہے کہ اسلام آباد پولیس ہمیں مارے گی تو ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں کہ مار کھا لیں۔ لیکن ذرائع کے مطابق وجہ یہ نہیں ہے۔ دراصل یہ لانگ مارچ میں انتشار کا منصوبہ تھا۔ جسے کال ٹریس کرکے بروقت ناکام بنادیا گیا۔ اسد فاروق ٹیکسلا تحصیل پنڈی کا رہائشی اور اسلام آباد ممتاز سٹی کے پاس رہائش پذیر ہے۔ جہاں اس نے بڑا گودام بنا رکھا ہے۔ جس میں ہر قسم کا اسلحہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ چونکہ علی امین نے سی پیک کے روٹ سے آنا ہے اور یہ روٹ اسلام آباد میں موٹروے ٹوٹل پلازہ سے نکلتا ہے۔ اور ممتاز سٹی وہ واحد ہائوسنگ سوسائٹی ہے جو موٹروے ٹول پلازہ سے ملحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علی امین ان لوگوں کو یہیں سے ساتھ لے کر روانہ ہونے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسد فاروق خان سے تفتیش کیلئے نہ صرف پولیس بلکہ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی حقائق جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا ٹیلی فون قبضے میں لے کر اس سے کال ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے۔ جس سے ان افراد تک پہنچنا بھی ممکن ہوگا، جو اس کے ساتھ اس سازش میں شریک تھے۔ غیر مصدقہ طور پر سازش میں شریک لوگوں کی تعداد درجنوں بتائی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں علی امین گنڈا پور اس سے قبل شراب کی بوتلوں سمیت پکڑا گیا تھا۔ لیکن اسے شہد کی بوتلیں قرار دے کر چھوڑ دیا گیا۔ علی امین گنڈا پور کی مشکوک سرگرمیاں 2013ء سے جاری ہیں۔
علاوہ ازیں علی امین پر تحریک انصاف کے دو صوبائی وزرا اسرار خان گنڈا پور اور ان کے بھائی اکرام خان گنڈا پور کے قتل کا الزام بھی ہے۔ یہ الزام ان کے لواحقین نے لگایا۔ علی امین پر کلاچی میں ایک خاتون کو برہنہ کر کے گھمانے والے کے سرپرست ہونے کا الزام تحریک انصاف کے اپنے ایم این اے نے لگایا تھا۔ سابق وفاقی وزیر پر یہ الزامات بھی ہیں کہ کشمیر میں بھی اسلحہ کے زور پر تحریک انصاف کو فوائد پہنچائے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق اسد فاروق کا اقبالی بیان جلد سامنے آسکتا ہے۔ جس سے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ یہ اسلحہ پہلے اسلام آباد کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں پر استعمال کرنے کا پلان تھا، جو بعد ازاں تحریک انصاف کے کارکنان کو مارنے پر منتج ہوتا۔ جس سے ملک میں بڑی تعداد میں انتشار پھوٹتا اور حکمران مجبور ہوجاتے کہ وہ دھرنے والوں کی شرائط مان لیں۔
بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو روز قبل عمران خان بتی چوک سے جس سرعت کے ساتھ بھاگے تھے۔ وہ بھی مذاکرات کرنے والوں کی ایما پر گئے۔ جہاں انہیں اسد فاروق کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی گئیں اور ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کا اقبالی بیان میڈیا پر چلا دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی لانگ مارچ میں گزشتہ روز دلچسی کم ہوتی دکھائی دی۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزم اسد فاروق کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔ جہاں اس سے تفتیش کار مزید بہت کچھ اگلوانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اسد فاروق خان جن کے ساتھ رابطے میں تھا۔ ان میں سے اکثر لوگ قتل اور اقدام قتل کے مقدمات میں ملوث پائے گئے ہیں اور اشتہاری ملزم ہیں۔ اس شخص کے رابطے جنوبی پنجاب سمیت کے پی کے اور فاٹا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ناظم کے الیکشنز میں بھی تشدد کے واقعات کے پیچھے اسی شخص کے لوگوں کا ہاتھ تھا۔ جو علی امین کی ایما پر ہوئے تھے۔
دوسری جانب سول سوسائٹی نے اسد فاروق خان کی گرفتاری پر خاصی تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’حکومت کو اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ علی امین کو معلوم ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144نافذ ہے۔ جس میں ہر قسم کے اسلحہ کی نمائش اور اٹھا کر چلنے پر پابندی عائد کی گئی ہے، چاہے وہ لائسنس والا اسلحہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے باوجود وہ دیدہ دلیری سے اسلحہ لانے کا منصوبہ بنارہا تھا۔ جبکہ اگر یہ حرکت کسی مذہبی جماعت کے رہنما سے سرزد ہوتی تو اسے فوری طور پرگرفتارکرکے کسی کال کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا ہوتا۔ لیکن علی امین نہ صرف ابھی تک آزاد ہے۔ بلکہ اب بھی حکومت کا دھمکیاں دے رہا ہے۔