اقبال اعوان:
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران بننے والی خوف کی فضا نے کراچی میں کاروبار ٹھپ کردیا۔ شادی بیاہ کے سیزن کی خریداری انتہائی کم ہوگئی اور کاروبار 25 فیصد تک رہ گیا۔ جس پر کراچی کے 20 لاکھ تاجروں اور ملازمین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ تاجر رہنمائوں نے کہا کہ لانگ مارچ کرسی حاصل کرنے کیلئے کیا جارہا ہے۔ چند روز یہ صورتحال رہی تو فاقوں کی نوبت آجائے گی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان عوام کو سیاسی بحران سے نکالیں اور مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ حل کرائیں۔ خراب صورتحال میں نقصان سیاسی لیڈروں کا نہیں بلکہ عوام اور کاروباری حلقوں کا ہوگا۔
’’امت‘‘ کو آل سندھ تاجر اتحاد کے چیئرمین جمیل پراچہ نے بتایا کہ آج کل کاروبار میں مندی کا رجحان ہے۔ تاجر برادری کورونا، بارشوں اور سیلاب کے باعث نقصان سے پہلے ہی پریشان تھی۔ پھر مہنگائی کا طوفان آنے پر معاشی طور پریشان حال شہریوں کی قوت خرید بھی کم ہو گئی اور خریداری کا رجحان کم ہوا۔ نئے نئے ٹیکس لاگو کیے گئے۔ بجلی کے بھاری بل آنے لگے اورغیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے کاروبار تباہ کر دیا۔ اب ایک بار پھر لانگ مارچ کا ڈرامہ شروع ہو چکا ہے۔ جمیل پراچہ نے کہا کہ ماہ ربیع الاول کے آغاز سے ہی شادی بیاہ کا سیزن شروع ہوجاتا ہے اور خریداری کا رجحان بڑھتا ہے۔ لیکن لانگ مارچ کی وجہ سے یہ سیزن برباد کردیا گیا ہے۔ لوگوں کو خوف ہے کہ نہ جانے کس وقت کیا ہوجائے۔ احتجاج کی کال آجائے۔ شہر کے حالات خراب ہوجائیں۔ اس لئے شہری پریشان ہوکر تجارتی مراکز کا رخ نہیں کر رہے۔ اس صورتحال میں کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے۔ تاجر برادری پریشان ہے کہ فاقوں کی نوبت نہ آجائے۔ لانگ مارچ عذاب بن رہا ہے۔ اس سے بہتر تھا کہ ملک میں مارشل لا نافذ کردیتے کہ ملک پرامن تو ہوگا اور عوام کو دو وقت کی روٹی مل سکے گی۔ سیاست دانوں کی جیبیں بھری ہیں۔ ان کا مزید مفاد پورا ہوگا۔ نقصان تاجروں اور عوام کا ہوگا۔ اس لانگ مارچ سے عوام یا تاجر برادری کا کوئی تعلق نہیں۔
آل سٹی تاجر اتحاد کے چیئرمین شرجیل گوپلانی کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں معیشت کا برا حال ہوگیا ہے۔ ڈالر دوبارہ اوپر جارہا ہے۔ انکم ٹیکس والوں کے تاجروں کو نوٹس آرہے ہیں اور 90 فیصد کراچی کے تاجروں کو نوٹس دے کر بلوایا جارہا ہے کہ ٹیکس ادا کرو۔ اب تاجر کیا کرے۔ اوپر سے لانگ مارچ کا عذاب آگیا ہے۔ ایک خوف کی فضا ہے۔ اس دوران شادی بیاہ کا سیزن چل رہا ہے۔ لیکن تجارتی مراکز پر سناٹا چھایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تاجروں کا زیادہ سامان پنجاب سے آتا ہے اور لانگ مارچ کی وجہ سے پنجاب بری طرح متاثر ہے۔ مال آنا بند ہوگیا ہے اور تاجروں کی رقوم پھنس گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کوئی مذاکرات کا راستہ نکالے اور یہ کام ٹیبل پر کیا جائے۔ ملک بھر کے عوام پریشان ہیں۔ تاجر مطالبہ کرتے ہیں کہ سیاست دان، ادارے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کریں۔
آل سٹی تاجر اتحاد کے سینئر رہنما احمد شمسی کا کہنا تھا کہ کراچی کے تجارتی مراکز میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ حالانکہ شادی بیاہ کی خریداری کا سیزن ہے۔ جس میں کپڑے، گارمنٹس، جوتے، مصنوعی جیولری، کاسمیٹکس، برتن، الیکٹرونکس کے سامان اور دیگر اشیا کی مارکیٹوں میں رش ہوتا ہے۔ لیکن سیزن تو کیا عام شاپنگ بھی ختم ہوچکی ہے۔ یہ لانگ مارچ کا ڈرامہ سارا کرسی حاصل کرنے کیلئے ہے۔ ہماری معیشت وینٹی لیٹر پر ہے اور سیاست دان مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ڈالر دوبارہ اوپر جارہا ہے اور مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے۔ تاجر کراچی کی مارکیٹوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ موجودہ سیاسی صورتحال آتش فشاں کی طرح ہے۔ جو کسی وقت پھٹ سکتا ہے۔ ایک آزاد ملک کو دوبارہ آزادی دلوانے کے نام پر جو ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔ اس پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف اس مسئلے حل کرائیں۔ کراچی کے تاجر کاروبار 25 فیصد رہ جانے پر پریشان ہیں۔ صورت حال یہی رہی تو فاقوق کی نوبت آجائے گی۔