ارشاد کھوکھر:
وفاقی و صوبائی حکومت کی ناقص پالیسیوں اور منصوبہ بندی کے باعث تقریباً سوا لاکھ سیلاب متاثرین کیلئے موسم سرما بھی ’’قدرتی آفت‘‘ ثابت ہوگا۔ کیونکہ گھروں کو واپسی کے باجود ان کے سروں پر چھت نہیں ہوگی کہ 7 لاکھ 16 ہزار 819 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں اور 11 لاکھ 68 ہزار 218 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
سندھ میں حالیہ بارشوں سے مجموعی طورپرتقریباً ڈھائی ٹریلین یعنی 25 کھرب روپے کے نقصانات ہو چکے ہیں۔ جبکہ بحالی کیلیے اب تک وفاقی و صوبائی حکومت کو عالمی مالیاتی ادارے تقریباً 550 ارب روپے یعنی ساڑھے 5 کھرب روپے فنڈنگ کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔ اب تک نقصانات کے سروے کے حوالے سے تقریباً 35 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ جس کے باعث صوبائی حکومت متاثرین اور انفرااسٹرکچر کی بحالی کے متعلق کسی بھی پروجیکٹ کو حتمی شکل نہیں دے سکی۔ سیلاب سے تباہ ہونے والے انفرااسٹرکچر کی بحالی اور ازسرنو تعمیر میں تین برس کی مدت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آبادگاروں کو ربیع کی فصل کی بوائی کیلئے بیج کی مد میں فی ایکڑ 5 ہزار روپے اور ڈی اے پی کھاد کی فی بوری پر ڈھائی ہزار وپے کی سبسڈی دینے کے اعلان کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر قرار دیا جا رہا ہے۔ سندھ میں جو نقصانات ہوئے ہیں۔ ان میں سے صرف زرعی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 400 ارب روپے تک ہے۔ سب سے زیادہ مکانات کے منہدم ہونے کے نقصان کا تخمینہ ہے۔ جو 11 سو ارب سے1300 ارب روپے تک ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں متاثرین کو مذکورہ مد میں تقریباً 390 ارب روپے کی امداد دینے پر غور کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے اعدادوشمار کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کی رپورٹس میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔
سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی تک حکومت سندھ کی جانب سے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 1800 ارب یعنی 18 کھرب روپے لگایا گیا ہے۔ تاہم سندھ میں مجموعی طور پر 2500 سے 3000 ارب روپے تک کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس کا حتمی تخمینہ نقصانات کا سروے مکمل ہونے کے بعد سامنے آئے گا۔ کیونکہ ابھی تک صوبہ بھر میں نقصانات کے حوالے سے تقریباً 35 فیصد سروے کیا گیا ہے۔ یعنی اصل سروے کا کام ابھی شروع ہوا ہے۔ کیونکہ زیر آب علاقوں سے پانی کا اخراج تین ہفتے قبل ہونا شروع ہوا ہے۔ تاہم ضلع دادو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ، ضلع جامشورو کی تحصیل سیوھن، ضلع خیرپور کی تحصیل ٹھری میرواہ، تحیصل فیض گنج سمیت ضلع نوشہرو فیروز کے بعض علاقے ابھی بھی زیر آب ہیں۔ اس لئے ایسے علاقوں کے نقصانات کا حتمی تخمینہ اس وقت لگایا جائے گا۔ جب ان علاقوں میں سیلاب کی صورتحال ختم ہوجائے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ نے ابتدائی طور پر جو نقصانات کا تخمینہ لگایا ہے۔ اس میں زرعی فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ تقریباً 350 ارب روپے، آبپاشی و ڈرینیج کے سسٹم کے نقصانات کا تخمینہ 110 ارب روپے، اسکولوں و تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ تقریباً 100 ارب روپے، دیگر سرکاری عمارتوں اور سڑکوں کے نقصانات کا تخمینہ بھی تقریباً 100 ارب روپے ہے۔ جبکہ بارشوں سے کچے پکے جو مکانات مکمل طور پر یا جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں، ان کے نقصانات کا ابھی تک حتمی تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ تاہم سرکاری رپورٹ کے مطابق سندھ میں 18 لاکھ 85 ہزار 29 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ جن میں سے 7 لاکھ 16 ہزار 819 گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں اور 11 لاکھ 68 ہزار 218 مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ اوسطاً فی مکان 7 لاکھ روپے نقصان کا بھی تخمینہ لگایا جائے تو نقصان 1300 ارب روپے سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگر فی گھر اوسطاً 5 لاکھ کے حساب سے تخمینہ لگایا جائے تو مذکورہ مد میں ایک ہزار ارب روپے یعنی دس کھرب روپے کا نقصان بنتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس معاملے پر پیر کے روز سندھ کابینہ کے اجلاس میں تفصیلی غور کیا گیا کہ گھروں کی تعمیر سے متعلق کیا اسٹرٹیجی بنائی جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مختلف تجاویز پر ابھی غور کیا جارہا ہے۔ تاہم کابینہ کے فیصلوں کے متعلق بریفنگ میں بتایا گیا کہ حکومت فی گھر تین لاکھ روپے کے حساب سے متاثرین کو بطور معاوضہ فراہم کرے گی۔ جبکہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے مکینوں کو فی کس ڈیڑھ لاکھ روپے معاوضہ فراہم کیا جائے۔ اس طرح صرف مذکورہ مد میں معاوضے کی رقم 390 ارب 27 کروڑ روپے بنتی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی کوئی حتمی پالیسی نہیں بنی ہے۔
جہاں تک متاثرین کے گھروں کی تعمیر کی بات ہے تو اس میں سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ابھی جو سردیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اس میں متاثرین کو سر چھپانے کی سہولت فراہم ہو سکے گی یا نہیں؟ اس کا جواب یقیناً منفی میں ہے۔ کیونکہ نقصانات کی بحالی اور ازسرنو تعمیر کیلیے جو فنڈز درکار ہیں۔ ان میں سے ابھی تک وفاقی و صوبائی حکومت مختلف مالیاتی اداروں سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر یعنی تقریباً 550 ارب روپے کی فنڈنگ کی یقین دہانی حاصل کر سکی ہے۔ جن میں سے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر فنڈنگ کی عالمی بینک نے یقین دہانی کرائی ہے۔ تقریباً ایک ارب ڈالر کی فنڈنگ کیلیے وفاقی حکومت کا ایشیائی ترقیاتی بینک سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ کے عالمی بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی فنڈنگ کے جو معاملات تقریباً طے ہوئے ہیں۔ ان میں سے 50 کروڑ ڈالر زرعی شعبے کی بحالی، 50 کروڑ ڈالر انفرااسٹرکچر کی بحالی اور تقریباً 50 کروڑ ڈالر یعنی تقریباً 110 ارب روپے متاثرہ گھروں کی بحالی کیلیے مختص کرنے کی بات ہوئی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ متاثرین کو مکانات کی تعمیرکی مد میں جو تقریباً 390 ارب روپے فراہم کرنے کا تخمینہ ہے۔ اس کا بروقت بندوبست کیسے ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کی کوشش ہے کہ مذکورہ مد میں متاثرین کو 15 نومبر سے فنڈز کی فراہمی شروع کی جائے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ مذکورہ فنڈز کی فراہمی تمام متاثرین کو ایک وقت میں نہیں ہو سکے گی۔ جس کے باعث جو متاثرین ابھی گھروں کو واپس جاچکے ہیں یا واپس جارہے ہیں۔ انہیں سردیوں کے موسم میں چھت فراہم نہیں ہو سکے گی۔ اپنے مسمار گھروں میں ان کو چار سے چھ ماہ تک گزارا کرنا پڑے گا۔ اس طرح سندھ میں سیلاب سے بے گھر ہونے والے تقریباً سوا کروڑ افراد کو اپنے گھروں میں واپس جانے کے بعد بھی مزید مشکلات کا سامنا رہے گا۔
ادھر سندھ میں سیلاب سے متاثرہ افراد کے حوالے سے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور سندھ کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی رپورٹس میں ایک بڑا تضاد یہ سامنے آیا ہے کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں سیلاب متاثرین کی تعداد ایک کروڑ 45 لاکھ سے زائد ہے۔ جبکہ پی ڈی ایم اے کی رپورٹس میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ 23 لاکھ 56 ہزار 860 ظاہر کی گئی ہے۔ اس طرح وفاقی اور صوبائی اداروں کی رپورٹس میں 22 لاکھ متاثرین کی تعداد کا فرق سامنے آیا ہے۔ اس ضمن میں حکومت سندھ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ این ڈی ایم اے کی نہیں بلکہ اس حوالے سے ان کے اعدادوشمار درست ہیں۔ کیونکہ این ڈی ایم اے کے حکام اس حوالے سے اپنا کوئی الگ سروے نہیں کرتے۔ بلکہ انہیں جو چاروں صوبوں کی پی ڈی ایم ایز سے رپورٹس موصول ہوتی ہیں، انہیں اکٹھا کرکے ملکی سطح پر ہونے والے نقصانات میں شامل کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے آبادگاروں کو ربیع کی فصلوں کی بوائی کیلئے امداد فراہم کرنے سے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ آبادگاروں کو بیج کے بجائے نقد رقم دی جائے۔ تاکہ آبادگار ربیع کے دوران نہ صرف گندم بلکہ جو بھی فصل اگانا چاہیں اس کے بیج خریدلیں۔ اس سلسلے میں آبادگاروں کو بیج کی مد میں فی ایک 5 ہزار روپے فراہم کئے جائیں گے۔ جس میں سے پچاس فیصد اخراجات وفاقی اور پچاس فیصد اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ سندھ میں سرکاری رپورٹس کے مطابق تقریباً 37 لاکھ 77 ہزار 272 ایکڑ فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ اس طرح بیج کی مد میں فی ایکڑ 5 ہزار روپے کے حساب سے آبادگاروں کو تقریباً 18 ارب 88 کروڑ 63 لاکھ روپے فراہم کئے جائیں گے۔
صوبائی حکومت کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت سندھ نے اپنے حصے کی رقم وفاقی حکومت کو فراہم کردی ہے۔ آبادگاروں کو فی بوری ڈی اے پی کھاد کی مد میں بھی ڈھائی ہزار روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔ اس حوالے سے آبادگاروں کا موقف ہے کہ سندھ میں زرعی فصلوں کو چار سو ارب روپے سے بھی زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت جو امداد فراہم کر رہی ہے۔ وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔