احمد خلیل جازم:
لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے مسجد نبوی واقعے کے کیس میں شیخ رشید کے خلاف اٹک میں درج مقدمے کی درخواستِ اخراج پر سماعت کرتے ہوئے تفتیشی افسر راجہ فیاض پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے، انہیں ملزمان کو چار روز میں گرفتاری کی مہلت دے دی۔ جب عدالت نے باقی ملزمان کے بارے استفسار کیا تو شیخ رشید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے انہیں سعودی عرب جاکر رہا کرا دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان کا اس کیس سے کیا تعلق؟ شہباز شریف کون ہوتے ہیں جو واقعے میں ملوث افراد کو رہا کرائیں۔ سیاستدان خود کو اس واقعے سے دور رکھیں اور اپنے رویوں پر غور کریں۔ عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ، تفتیشی افسر صاحب! آپ قرآن پڑھ لیں، جس میں واضح ہے کہ نبی پاک ﷺ کی آواز سے اپنی آواز نیچی رکھو۔ آپ کو چار دن کی مہلت دیتے ہیں۔ افسوس ناک واقعے کی ویڈیو میں نظر آنے والے ملزمان کو گرفتار کریں۔ عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 4 نومبر تک ملتوی کر دی ہے۔
واضح رہے کہ مسجد نبوی کے احاطے میں جس قسم کی نعرہ بازی کی گئی، اس سے نہ صرف پاکستانی قوم کے سر شرم سے جھکے، بلکہ تحریک انصاف کے ان بدتمیز و بدتہذیب کارکنان کو بھی سعودی حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔ سعودی حکام نے سات پاکستانیوں کو گرفتار کیا تھا اور مدینہ منورہ کی عدالت نے ان میں سے تین کو آٹھ سال، تین کو چھ سال، جبکہ ایک شخص کو تین سال قید اور دس ہزار ریال جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ دورہ سعودی عرب میں وزیر اعظم شہباز شریف کی سفارش پرسعودی پرنس محمد بن سلمان نے ان کی سزائیں معاف کر دی تھیں۔
اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اختیار شہباز شریف کا نہیں ہے کہ وہ ان کی سزا معاف کرائیں۔ وہ صرف سفارش کر سکتے ہیں اور یہی کام انہوں نے کیا ہے۔ اب یہ اختیار اس ملک کے با اختیار لوگوں کا ہے کہ وہ انہیں معاف کرتے ہیں یا نہیں۔
معروف قانون دان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ حشمت حبیب نے اس حوالے سے ’’’امت‘‘ کو بتایا ’’دائر کیس اپنے حقائق پر چلے گا۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ ایک پارٹی نے جرم کیا ہے۔ لیکن وہ جرم پاکستان سے باہر کیا ہے اور اس کے خلاف اسی ملک میں مقدمہ چل سکتا ہے۔ چنانچہ وہاں پر مقدمہ دائر ہوا۔ جرم ثابت ہونے پر سزا سنا دی گئی اور جرمانہ بھی کردیا گیا۔ اب جب کہ سزا بھی دے دی گئی تو ساری صوابدید اس حکومت کی ہے جہاں ان پر مقدمہ قائم ہوا اور سزا دی گئی۔ اب ان کے قانون میں ان سزائوں کی تخفیف یا معافی کا اختیار بھی اسی طرح ہے، جس طرح پاکستان میں صدر پاکستان کو سزائیں معاف کرنے کا اختیار ہے۔ ایسے ہی اختیارات وہاں کے حکام کو بھی حاصل ہیں۔ سعودی عرب کے قوانین کے تحت محمد بن سلمان کو بھی اختیار ہے کہ وہ اس سزا میں کمی بیشی کرسکتے ہیں اور معاف بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسی قانون کے تحت ان مجرموں کی سزا معاف کی ہے۔ جہاں تک روضہ اقدس کا احترام ہے۔ اس میں وہ بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ روضہ رسول پر آواز بلند کرنے والے لوگ لعنتی تو پہلے ہی بن جاتے ہیں‘‘۔ اس سوال پر کہ کیا وہ لوگ پاکستان واپس آئیں گے تو ان کے خلاف کیس چل سکتا ہے؟
حشمت حبیب کا کہنا تھاکہ ’’ان کے خلاف اگر کوئی کیس کرتا ہے تو اس پر ان لوگوں کا استدلال یہ ہوگا کہ ان کو اس جرم کی سعودی عرب میں مقدمہ کے تحت سزا ہوچکی ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ کیس کس پر ہے کہ آیا وہی مجرم ہیں، جنہیں سعودی عرب میں سزا ہوئی یا دیگر ملزمان ہیں جن پر مقدمہ چلے گا۔ جہاں تک لاہور ہائی کورٹ پنڈی بنچ کی عدالت کو معلومات دی گئی ہیں، وہ مکمل نہیں دی گئیں۔ شہباز شریف نے ان لوگوں کے خلاف کیس کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ان کو بری کیا ہے۔ انہیں صرف سفارش کا اختیار تھا، جسے انہوں نے استعمال کیا کہ یہ پاکستانی ہیں، بھٹک گئے تھے یا جو بھی تھا، انہیں معاف کردیں۔ معافی دی ہے سعودی حکومت نے۔ شہباز شریف نے معافی نہیں دی۔ ایسی سفارش کوئی بھی سعودی حکمرانوں سے کرسکتا ہے اور ان کا اختیار ہے کہ وہ کسی کی سنتے ہیں یا نہیں؟ لیکن پاکستان میں جب ان کے خلاف کوئی کیس کرے گا تو ان کے پاس یہ مضبوط دلیل ہوگی کہ ہمیں اپنے گناہ کی سزا مل چکی ہے۔
باقی عدالت نے یہ کہا ہے کہ ویڈیو دیکھ کر دیگر لوگوں کی بھی نشان دہی کریں۔ تو ان کے خلاف بالکل کیس چل سکتا ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت نے شہباز شریف کے خلاف ریماکس دے کر کوئی غلطی کی ہے۔ معزز جج سے بالکل غلطی نہیں ہوئی۔ جج کو جتنی معلومات دی گئی ہیں، اس پر انہوں نے ری ایکٹ کیا ہے۔ کیوں کہ ہمارے لیے حضور ﷺ کی شان رسالت جان، مال ، اولاد اور ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس لیے معزز جج کا ری ایکشن بالکل درست ہے کہ وزیر اعظم کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ ان کی سزا معاف کریں۔ لیکن اصل میں شہباز شریف نے سزا معاف نہیں کی۔ یہ سعودی حکومت نے معافی دی ہے۔ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے‘‘۔