نواز طاہر:
تحریک انصاف کا کچھوے کی چال چلتا لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچ گیا ہے۔ تاہم شرکا کی تعداد مزید سکڑ کر پانچ سے چھ ہزار تک رہ گئی ہے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کی جانب سے دیئے گئے شیڈول کے مطابق قافلہ اتوار کو جہلم تک ہی پہنچے گا۔ جبکہ آج بدھ کو لانگ مارچ دس کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے راولپنڈی بائی پاس سے گکھڑ منڈی تک پہنچ سکے گا۔ منگل کو عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت گوجرانوالہ شہر کی سڑکوں پر مخالفانہ نعروں پر سیخ پا رہی۔ ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب سمیت مختلف اضلاع کے قافلوں کو نئے ’احکامات‘ کا انتظار کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔
واضح رہے کہ چوتھے مرحلے میں عمران خان کا گوجرانوالہ میں بھرپور استقبال کیا گیا۔ ایک جانب ان کیلئے خیر مقدمی بینرز لگائے گئے تو دوسری طرف مخالفانہ نعروں پر مبنی بینرز بھی تھے اور وال چاکنگ کی گئی تھی۔ جہاں جہاں سے عمران خان نے قافلے کے ساتھ گزرنا تھا۔ ان راستوں اور ملحقہ علاقوں میں ’گھڑی چور‘ کے بینرز کی تعداد رات ہی رات میں بڑھ گئی تھی۔ گوجرانوالہ شہر میں شرکا کی تعداد پیر کی شام کو چن دا قلعہ سے مزید کم رہی۔ منگل کو لانگ مارچ کے اگلے مرحلے گوجرانوالہ شہر کے مختلف علاقوں میں مارچ سے قبل گوجرانوالہ سے جہلم تک کا شیڈول جاری کیا گیا۔ جس میں بتایا گیا کہ بدھ (آج) کو لانگ مارچ راولپنڈی بائی پاس سے شروع ہوکر راہوالی (گوجرانوالہ کینٹ) پر رکتا ہوا گکھڑ منڈی پہنچے گا۔ جمعرات کو وزیر آباد سے گجرات تک کا سفر کر ے گا۔
پی ٹی آئی کی قیادت کے مطابق گجرات میں قافلے کے میزبان چودہری پرویز الہی ہوں گے۔ جہاں استقبال کی تیاریاں پرویزالٰہی کے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی مونس الٰہی کی قیادت میں جاری ہیں۔ جمعے کو لانگ مارچ گجرات سے لالہ موسیٰ تک منزل طے کرے گا۔ ہفتے کو قافلہ کھاریاں سے شروع ہوکر سرائے عالمگیر پہنچے گا اور اتوار کو جہلم پہنچے گا۔ جبکہ اسلام آباد کا شیڈول فی الوقت حکمت عملی کے تحت جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم گوجرانوالہ میں پی ٹی آئی رہنمائوں مخدوم شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری نے شیڈول میں مزید تبدیلی کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ لانگ مارچ اتوار تک اسلام آباد پہنچنا ممکن نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کے بعد شیڈول کے برعکس عمران خان نے ڈھائی بجے چن دا قلعہ سے خطاب کے بعد مارچ شروع کیا تو اس کا حجم نصف کلومیٹر تھا۔ جن میں سے نصف سے زیادہ پولیس اور میڈیا کی گاڑیاں شامل تھیں۔ اس سے پہلے شہر میں داخل ہونے والا ٹریفک بند تھا اور مارکیٹیں بھی بند رہیں۔ عمران خان سب سے زیادہ وکلا کے استقبالیے میں پرجوش ہوئے۔ جذباتی انداز میں پی ڈی ایم کے دو قائدین میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جبکہ عسکری اداروں کے بارے گزشتہ دنوں کے برعکس سخت الفاظ کے بجائے اپنی وکالت کی اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے روابط اچھے ہیں۔ اس سے قبل قافلے میں پہلے سے شامل شرکا عمران خان کے ملک میں مارشل لا کے حوالے سے بیان پر تبصرہ کرتے دکھائی دے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان کے لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت اور ادارے دبائو میں آگئے ہیں۔ اگر عمران خان کے مطالبات تسلیم کرکے قبل از وقت الیکشن کی تاریخ نہ دی گئی تو ملک میں مارشل لا لگ جائے گا اور امپورٹڈ حکومت گھر چلی جائے گی۔
ادھرعمران خان کے بارے میں گھڑی چور کے بینرز لگانے کے حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ بینرز لگا کر ماحول خراب کرنے کا مسلم لیگ ’ن‘ پر الزام درست نہیں۔ کیونکہ اب تک جہاں سے بھی لانگ مارچ گزرا ہے۔ کہیں بھی ایسے نعرے نہیں لگائے گئے۔ یہ بینرز بھی مسلم لیگ ’ن‘ نے نہیں لگائے۔ پی ٹی آئی غلط بیانی کر رہی ہے۔ کیونکہ عمران خان یہاں کم از کم بیس ہزار افراد کی توقع رکھتے تھے۔ لیکن پانچ سے چھ ہزار افراد کی شرکت سے انہیں اطمینان نہیں ہوا اور بینرز کا بہانہ بنالیا گیا۔ دریں اثنا محکمہ داخلہ پنجاب کو موصول رپورٹوں میں تصدیق کی گئی ہے کہ قافلے میں چند ہزار سے زیادہ لوگ جمع نہیں ہو سکے۔
دوسری جانب جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ ہے کہ انہیں لانگ مارچ میں شامل ہونے کیلئے قافلے روانہ کرنے سے روک دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جب انہیں ہدایات جاری کی جائیں تو ایک روز کے شارٹ نوٹس پر روانہ ہوں اور راولپنڈی یا اسلام آباد جس مقام کا بھی تعین کیا جائے، وہاں پہنچیں۔ ان ذرائع کے مطابق عمران خان نے ابھی مخصوص علاقوں کو ٹارگٹ کیا ہے اور وہ مختف شہروں میں عوام کو موبلائز کر رہے ہیں۔ اصل مارچ حتمی اعلان پر ہوگا جب اراکین اسمبلی اور پارٹی عہدیدار بسیں اور گاڑیاں بھر کر جنوبی پنجاب سمیت تمام علاقوں سے پہنچیں گے اور یہ فائنل رائونڈ ہوگا۔