عمران خان:
ایف آئی اے کے ملک بھر کے سرکلز میں ہنڈی حوالہ کے سینکڑوں کیس خراب ہوچکے ہیں۔ جبکہ ایجنٹوں کے ذریعے حوالہ ہنڈی کرانے والے ہزاروں تاجروں، سرکاری افسران اور عام شہریوں کو تحقیقات میں شامل کرنے کی آڑ میں اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق زر مبادلہ کی غیر قانونی خرید و فروخت اور ترسیل میں ملوث عناصر کے خلاف موثر کارروائیوں کے لئے وفاقی حکومت کی جانب سے فارن ایکسچینج ریگو لیٹری ایکٹ اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی متعلقہ دفعات میں تبدیلیاں بھی کرکے ایف آئی اے کے شیڈول پر دی گئیں۔ تاکہ ان میں سزائوں اور جرمانے میں اضافے کے ساتھ جرائم کے نئے طریقہ واردات کا احاطہ کیا جاسکے۔ ساتھ ہی ایف آئی اے کو کئی مراحل میں اسٹیٹ بینک اور عدالت کی پیشگی اجازت سے مشروط کارروائی میں سہولت فراہم کی جاسکے۔ تاہم اس کے باجود ایف آئی اے افسران نے ان کیسوں میں روایتی انداز تفتیش جاری رکھا ہوا ہے، جس میں کارروائی کو صرف حوالہ ہنڈی میں ملوث ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ ان ایجنٹوں سے ملنے والے ایسے ہزاروں شہریوں کا وہ اہم ریکارڈ جو کئی برسوں سے ان ایجنٹوں کے ذریعے قیمتی زر مبادلہ کا حوالہ کرواکر ملک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ، اپنے ذرائع آمدنی اور اثاثے چھپارہے ہیں اور منی لانڈرنگ کے ساتھ ٹیکس چوری کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس پر کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جاتا۔ بلکہ ایسے ہزاروں شہریوں کو صرف تحقیقات میں پوچھ گچھ کے بہانے طلب کرکے ان سے جوڑ توڑ کر اسے اپنی اضافی آمدنی کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول تقریباً ہر حکومت کے دور میں ملک سے قیمتی زر مبادلہ کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے اور ڈالر کی قدر کو کم کرنے کے لئے ایف آئی اے کو حوالہ ہنڈی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون کی ہدایات جاری کی جاتی رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے کے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی کے علاوہ ملک بھر کے ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل، کمرشل بینکنگ سرکل اورکارپوریٹ کرائم سرکلوں میں حوالہ ہنڈی میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف گزشتہ برسوں میں سینکڑوں مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ ان مقدمات میں گرفتار ہونے والے ایجنٹوں، ایکسچینج کمپنیوں کے ملازمین اور ان کے دفاتر سے کروڑوں روپے مالیت کی غیر ملکی کرنسی اور حوالہ ہنڈی کے ثبوت بھی ضبط کئے جاتے ہیں۔ تاہم اس کے بعد کارروائی میں تفتیش کو صرف ان ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ ان کیسوں میں ایجنٹوں سے کروڑوں روپے کا حوالہ کروانے والے شہریوں جن میں تاجروں ،سرکاری ملازمین اور عام شہریوں کے علاوہ نجی ایکسچینج کمپنیوں کے مالکان اور ڈائریکٹرز بھی شامل تفتیش ہوسکتے ہیں، تاہم اس بڑے حصے کو جان بوجھ کر دبا دیا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی کارروائیوں سے وفاقی حکومت جو اصل مقصد حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ ان کیسوں پر مکمل اور شفاف تحقیقات سے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اصل چیز قوانین کو نافذ کرکے حکومت کی رٹ کو بحال کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ شہری حوالہ ہنڈی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے سے گریز کریں اور اندرون ملک اور بیرون ملک بینکنگ چینل سے ہی اپنی رقوم کی ترسیل کریں۔ تاہم جب ایف آئی اے کی جانب سے تفتیش کو صرف گرفتار ایجنٹوں تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔ جس سے گزشتہ کئی دہائیوں سے زر مبادلہ غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوانے والے شہریوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ اسی ایجنٹ کے باہر آنے کے بعد اس سے دوبارہ کام کرواتے ہیں یا پھر مارکیٹ میں کوئی دوسرا آدمی تلاش کرلیتے ہیں ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق ن لیگ حکومت میں اسحاق ڈار کی جانب سے ایف آئی اے کو ایسے ہی ملک گیر کریک ڈائون کے احکامات دیئے گئے تھے جس طرح ان سے پہلے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کی جانب سے آپریشن کروایا گیا تھا۔ اسی طرح اب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار دوبارہ ڈالر کی قدر کو روپے کے مقابلے میں مستحکم بنانے کے لئے ایف آئی اے کو ہنڈی حوالہ اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کارروائیوں کا ٹاسک دے چکے ہیں۔ تاہم ایف آئی اے کی جانب سے ان کیسوں میں نہ پہلے جدت لائی گئی اور نہ ہی اب انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایف آئی اے کی جانب سے گزشتہ تین برسوں میں حوالہ ہنڈی اور کرنسی کی غیر قانونی منتقلی کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات پر ایف اے ٹی ایف کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، جب ان کے ماہرین کو 2019ء اور 2020ء میں رپورٹ پیش کی گئی۔ ان تحفظات کے بعد وفاقی حکومت منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کے مقدمات پر موثر رپورٹ پیش کرنے کے لئے اسلام آباد میں ایک علیحدہ مکمل ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ بنانے پر مجبور ہوئی جس میں باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل لیول کے افسر کو تعینات کرکے انہیں پورا اسٹاف اور وسائل فراہم کئے گئے۔ ذرائع کے بقول ایف اے ٹی ایف کے ماہرین کا اس وقت بھی یہی اعتراض تھا کہ ایف آٓئی اے اپنے کیسوں میں صرف ایجنٹوں تک محدود رہتی ہے۔ جبکہ ان کے اکثر کیس عدالت میں عدم ثبوت پر ختم ہوجاتے ہیں اور ضبط شدہ رقم کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔
اس ضمن میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کا موقف ہے کہ حوالہ ہنڈی کے کیسوں میں ایف آئی اے کے افسران حوالہ کروانے والے شہریوں کو بطور گواہ شامل کرتے ہیں۔ لیکن یہ تعداد ایک یا دو ہوتی ہے۔ جبکہ ایجنٹوں سے جو ریکارڈ ملتا ہے اس میں بعض اوقات درجنوں کلائنٹس کے نام اور کوائف ہوتے ہیں، تاہم باقی سب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر وفاقی حکومت میں اس میں مداخلت کرتی ہے، جب تاجروں کے وفد خود کو بچانے کے لئے حکومتی اراکین سے سفارش کرواتے ہیں اور ایف آئی پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایف آئی اے ان کلائنٹس کے خلاف کارروائی میں محتاط رہتی ہے۔ تاہم زیادہ تر کارروائیوں میں جب کلائنٹس کا ڈیٹا سامنے آتا ہے تو اس میں خود قانون نافذ کرنے والے داروں سمیت دیگر سرکاری اداروں، سیاستدانوں اور بڑے تاجروں کے نام سامنے آجاتے ہیں جن کیخلاف کارروائی کرنا تفتیشی افسر کے بس سے باہر ہوجاتا ہے اس لئے اس حصے کو دبانا پڑتا ہے۔