نواز طاہر:
پی ٹی آئی کے جاری لانگ مارچ کے جلسوں کے حفاظتی انتظامات کے حوالے سے پی ٹی آئی کارکنوںاور مقامی ضلعی و پولیس انتظامیہ میں تکرار معمول بن رہی ہے۔ جس کی بنا پر پنجاب حکومت کیخلاف پی ٹی آئی کارکنوں میں تحفظات بڑھ رہے ہیں۔ کارکنان، صوبائی انتظامیہ سے ناراض ہیں۔ جبکہ صوبائی انتظامیہ، کارکنوں کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہونے لگی ہے اور یہ خلیج مزید گہری ہونے کا امکان ہے۔
ہفتے کی شام پنجاب میں سخت حفاظتی انتظامات میں لالہ موسیٰ اور جھنگ میں جلسے ہوئے، جن کا اختتام پارٹی کے سربراہ عمران خان کے اپنے آبائی گھر زمان پارک لاہور سے مواصلاتی خطاب سے ہوا۔ طے شدہ شیڈول کے مطابق لالہ موسیٰ میں مارچ کی قیادت پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی نے اور جھنگ میں جماعت کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے کی اور کارکنوں کو راولپنڈی پہنچنے پر ’خوشخبری‘ ملنے کا دعویٰ کیا۔
یاد رہے کہ وزیر آباد کے اللہ والا چوک میں تین نومبر کو فائرنگ کے بعد لانگ مارچ ختم کرکے اسے جلسوں میں بدل دیا گیا ہے اور سیکورٹی کے مسائل کی بنا پر تمام جلسے، سیکورٹی ایس او پیز کے تابع بنا دیے گئے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کے کارکنان یہ سیکورٹی اقدامات تسلیم کرنے پر تیار نہیں، جس کی وجہ سے کارکنوں اور سیکورٹی اہلکاروں میں تلخ کلامی اور تکرار معمول بن گئی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کارکنوں کے ساتھ ساتھ بعض رہنمائوں کے رویے میں بھی سختی آرہی ہے اور یہ انتہا پسندی روز بروز بڑھتی جارہی ہے، جس سے سیکیورٹی امور متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی خواتین خاص طور پر ان سیکورٹی اقدامات کو نظر انداز کررہی ہیں اور نوجوان تو بات سننے تک کو تیار نہیں۔
ایک پولیس افسر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ نہ تو ہم سیکورٹی کے معاملات میں کمپرو مائز کرسکتے ہیں اور نہ ہی پی ٹی آئی کے کسی رہنما اور کارکن پر سختی کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا گجرات میں رہا اور ہفتے کو لالہ موسیٰ کے بعض مقامات پربھی یہی صورتحال رہی۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا بھی ہمارے ساتھ تعاو ن نہیں کر رہا اور جہاںکہیںسیکورٹی کے حوالے سے میڈیا والوں سے تعاون کی درخواست کی جاتی ہے، وہاں ایسی صورتحال کی منظر کشی کی جاتی ہے جیسے پاکستانیوں کے کسی قافلے کو دشمن ملک کے کسی لشکر نے روکا ہو۔ اس ضمن میں قومی میڈیا تو صورتحال کی نزاکت اور سیکورٹی معاملات میں تعاون کرتا ہے۔ لیکن یہ جو سوشل میڈیا کا نیا جن پیدا ہوگیا ہے، یہ شتر بے مہار ہوگیا ہے اور اب پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں میں جتنے کارکن ہوتے ہیں۔ اتنے ہی کیمروں والے یہ نوخیز ’’صحافی‘‘ ہوتے ہیں جو سیکورٹی امور سمجھتے ہیں اور نہ ہی اخلاقی قدروں کا خیال رکھتے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کارکنوں کا شکوہ ہے کہ سیکورٹی کے نام پر ان کی اپنی صوبائی حکومت ان کے ساتھ سختی سے پیش آرہی ہے اور کارکنوں میں بد دلی پیدا کی جارہی ہے۔
ہفتے کو لالہ موسیٰ میں جب جلسہ گاہ جانے والے راستوں پر حفاظتی رکاوٹیںکھڑی کی گئیں تو اس پر پی ٹی آئی کے کارکنان مشتعل ہوگئے۔ ایسی اطلاعات جھنگ کے جلسے کے حالے سے بھی موصول ہوئی ہیں۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق جھنگ میں چھ سے سات ہزار اور لالہ موسی میں تین سے چار ہزار افرادکی سیکیورٹی چیکنگ پڑتال اس قدر چیلنج تھا جسے کسی میٹروپولٹین شہر میں لاکھ سوا لاکھ افراد کی چیکنگ کرنا ہو۔ اوریہ بھی ا سی صورت میں ممکن ہورہی ہے کہ مقامی پولیس کے بجائے غیر مقامی پولیس اہلکاروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ جھنگ اور لالہ موسیٰ میں جلسوں سے قبل ایس او پیز کے تحت اسنائپرز تعنات کیے گئے۔ سیکیورٹی کیمرے اور ڈرون ہمہ وقت نگرانی کرتے رہے۔ جبکہ سادہ لباس نفری بڑھا دی گئی۔ دریں اثنا داخلی امور دیکھنے والے محکمے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں اور سیکیورٹی اداروں میں عدم تعاون کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ لیکن سیکیورٹی کے معاملات میں کوئی کمپومائز نہیں کیا جارہا۔ مجموعی طور پر نصف سے زائد صوبائی انتظامیہ صرف لانگ مارچ انتظامات میں مصروف ہے۔