پنجاب پولیس کو عمران خان کا سیکیورٹی گارڈ بنا دیا گیا

نواز طاہر:
لاہور میں سابق وزیراعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کے آبائی گھر زمان پارک کی سخت ترین سیکورٹی کے سبب پہلی بار علاقہ مکین شدید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں اور عمران خان کے بنی گالا جانے کے منظر ہیں۔ تاہم فوری طور پر ان کا بنی گالا منتقل ہونے کا پروگرام نہیں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے عمران خان کو سابق وزیراعظم کی حیثیت سے خصوصی سیکورٹی بھی فراہم کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی خیبرپختون حکومت کی جانب سے بھی خصوصی حفاظتی دستے مامور کیے گئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق جب عمران خان کو زمان پارک کی رہائشگاہ منتقل کیا گیا تھا تو سیکورٹی انتظامات اس حد تک نہیں تھے۔ لیکن اچانک ان میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور وجہ یہ بتائی گئی کہ کپتان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ سیکیورٹی بڑھائے جانے کے دوران ہی عمران خان کے دونوں صاحبزادے قاسم اور سلمان بھی عیادت کیلیے لاہور پہنچ گئے۔ جس کے بعد ان کے گھر کی کھڑکیوں پر بھی بلٹ پروف شیشے لگا دیے گئے۔ جن کی مالیت نوّے لاکھ روپے بتائی گئی ہے اور سرکاری طورپراس کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ یہ رقم عمران خان اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نوّے لاکھ کی رقم عمران خان کے پرسنل اکائونٹ کے بجائے پارٹی فنڈ کے اکائونٹ سے ادا کی جائے گی۔

اس ضمن میں محکمہ داخلہ پنجاب اور محکمہ خزانہ پنجاب کے حکام گفتگو سے گریزاں ہیں۔ عمران خان کے آبائی گھر کی زمینی و فضائی اور الیکٹرانک سیکورٹی پر مجموعی طورپرتقریباً ایک ہزاراہلکارفرائض انجام دے رہے ہیں۔ سخت ترین حفاظتی انتظامات کے باعث زمان پارک پولیس کا قلعہ دکھائی دینے لگا ہے۔ عمران خان کے گھر کے اطراف میں جیمرز والی ایک گاڑی مستقل کھڑی کردی گئی ہے اور ہر کونے پر ناکہ بندی کی گئی ہے۔ کینال روڈ سے زمان پارک میں داخل ہونے والے راستے پر آہنی جالیوں کی دیوار بناکر اس سے آگے گلی کے باہر ہی ریت کی بوریوں کی دیوار بنائی گئی ہے اور اسے قناتیں لگا کر ڈھانپ دیا گیا ہے۔

فول پروف سیکورٹی کے پیشِ نظر ریت کی بوریاں بھی باہر سے ریت لاکر سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں موقع پر بھری گئیں۔ اسی طرح اس علاقے میں لاہور کے سابق ناظم میاں عامر محمود کی طرف سے شہریوں کو سرکاری پانی کی بلا تاخیر بہتر سپلائی کیلیے نصب کیا جانے والا ٹیوب ویل بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اس کی مشینری اتار لی گئی ہے اور کمرہ سیکورٹی اہلکاروں کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ زمان پارک میں داخل ہونے والاراستہ انتہائی محدودکردیا گیا ہے اور اب یہ راستہ عمران خان کے ہمسائے بیرسٹراعتزازاحسن چوہدری سمیت چند افراد ہی استعمال کرتے ہیں۔ جنہیں سیکیورٹی چیک کے بعد گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

اس علاقے میں کوٹھیوں کے گھریلو ملازمین کو بھی متابادل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ جس کا فاصلہ ڈیڑھ سے دو کلومیٹر بنتا ہے۔ البتہ عمران خان کے بالکل سامنے والے تین کوٹھیوں کے ملازمین کو شناخت کرکے وہاں سے گزرنے کی اجازت ہے۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے تمام انتظامات کرنے کے باوجود عمران خان نے ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختون سے بھی گارڈ منگوائے ہیں۔ جنہیں گھر کی اندرونی سیکورٹی سونپی گئی ہے۔ عمران خان سے ملاقات کی اجازت ملنے والے افراد کی لسٹ بھی یہی اہلکار سیکورٹی ڈیسک کو فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ پنجاب حکومت کی فورسز نے بیرونی سیکورٹی سنبھال رکھی ہے۔

اگرچہ بتایا گیا ہے کہ خیبر پختون سے پندرہ سے پچیس اہلکار سیکورٹی ڈیوٹی کیلئے آئے ہیں۔ لیکن مقامی افراد کے مطابق ان کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ گھر کے اندر ڈیوٹی کرنے کے ساتھ ساتھ ملحقہ گلیوں اور سڑکوں پر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اتنی نفری اور حفاظتی ناکوں کے باعث زمان پارک رہائشی علاقہ کے بجائے پولیس اسٹیٹ دکھائی دیتا ہے۔ دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ عمران خان اپنی آبائی رہائشگاہ پر طویل قیام کرنا چاہتے ہیں اور اسے بنی گالا کی رہائشگاہ پر ترجیح دے رہے ہیں۔ تاہم لانگ مارچ کیلئے راولپنڈی جاسکتے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ حکومتوں کی تبدیلی تک اور پنجاب میں اپنی جماعت کی حکومت قائم رہنے تک زیادہ وقت پنجاب کی حدود میں اپنے آبائی گھر میں گزاریں گے۔