محمد نعمان اشرف:
صوبائی و شہری حکومتوں کی عدم دلچسپی کے سبب کراچی فائر بریگیڈ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ آگ بجھانے کیلئے محض 20 گاڑیاں اور 2 اسنارکل موجود ہیں۔ ایک بھی ریسکیو گاڑی موجود نہیں۔ ڈرائیور نہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے مالیت کی 8 بڑی باؤزر گاڑیاں کھڑی کھڑی ناکارہ ہورہی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن اور وائرلیس سسٹم بھی ناکارہ ہے۔ جس کی وجہ سے آگ کی بروقت اطلاع نہیں دی جاتی۔ 30 فائر اسٹیشنز ہونے کے باوجود صرف 15 فائر اسٹیشن تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔ سابق میئر وسیم اختر کے دور میں کیمیکل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گوگلز اور فائر مین ہیلمٹ کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی۔ سیاسی بھرتیوں نے بھی محکمہ کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
شہر کراچی میں آتشزدگی کے واقعات بڑھنے کے باوجود محکمہ فائر بریگیڈ پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جارہی۔ محکمہ اس وقت تمام سہولیات سے محروم ہے۔ ساڑھے تین کروڑ آبادی والے شہر میں آگ بجھانے کیلئے محض 20 گاڑیاں اور 2 اسنارکل موجود ہیں۔ جبکہ حادثے کی صورت لوگوں کو ریسکیو کرنے کیلئے محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس ایک بھی گاڑی موجود نہیں۔ محکمہ فائر بریگیڈ کے ذرائع نے بتایا کہ محکمہ میں وفاق کی جانب سے دی گئی گاڑیاں ہی کام کر رہی ہیں۔ کے ایم سی کے پاس اپنی خود کی کوئی گاڑی نہیں ہے۔ شہر میں آتشزدگی کا کیس رپورٹ ہونے پر بڑے اسنارکل کی ضرورت پیش آتی ہے۔ تاہم کے ایم سی کے پاس محض 2 اسنارکل ہیں۔ جبکہ 3 اسنارکل معمولی خرابی کے باعث کھڑے کردی گئی ہیں۔ جو کھڑی کھڑی ناکارہ ہو رہی ہیں۔ کروڑوں روپے مالیت کی اسنارکل کیلئے محکمہ نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو متعدد درخواستیں لکھی ہیں۔ لیکن کسی نے بھی کوئی اقدامات نہیں کیے۔ کثیر المنزلہ عمارت میں آتشزدگی کی صورت میں ریسکیو گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن کے ایم سی کے پاس ایک بھی ریسکیو گاڑی موجود نہیں۔ کئی برسوں پہلے جاپان کی جانب سے کے ایم سی کو ایک ریسکیو گاڑی فراہم کی گئی تھی۔ لیکن وہ بھی عدم توجہ کے باعث خراب ہوگئی۔ بڑی عمارت میں آگ لگنے کے بعد شہریوں کو بحفاظت نکالنے کے بھی آلات موجود نہیں۔ اور اگر آگ لگنے کے باعث عمارت منہدم ہوجائے تو ریسکیو کرنے کیلئے بھی کچھ نہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ محکمہ فائر بریگیڈ میں آگ بجھانے کیلئے محض 2 باؤزر گاڑیاں ہیں۔ جبکہ بڑی باؤزر گاڑیوں کیلئے 8 برسوں سے کے ایم سی کو ڈرائیور ہی نہیں ملا۔ جس کے باعث بڑی باؤزر گاڑیاں ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ چھوٹی باؤزر گاڑی میں 14 سو گیلن پانی آتا ہے جبکہ بڑی باؤزر میں 44 سو گیلن پانی اسٹور کیا جاتا ہے۔ آتشزدگی کے مقام پر اگر بڑی باؤزر گاڑی پہنچ جائے تو آگ پر فوری طور پر قابو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن شہر میں آتشزدگی کے واقعات بڑھنے کے باوجود بڑی باؤزر گاڑیاں نہیں نکالی جاسکیں اور نہ ان کیلئے ڈرائیور کا انتظام کیا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو تحقیقات پر معلوم ہوا کہ گزشتہ کئی برسوں سے فائر بریگیڈ کی ہیلپ لائن بھی بند پڑی ہے۔ 16 ہیلپ لائن بند ہونے سے شہری آگ کی بروقت اطلاع دینے سے محروم ہوگئے ہیں۔ اکثر فائر بریگیڈ حکام متاثرہ مقام پر اس وقت پہنچتے ہیں جب آگ کی شدت میں اضافہ ہوچکا ہوتا ہے اور اس کی بڑی وجہ ہیلپ لائن کا بند ہوجانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محکمہ فائر بریگیڈ میں وائرلیس سسٹم بھی ختم ہوگیا ہے۔ فائر بریگیڈ کی کسی بھی گاڑی یا فائر اسٹیشن میں وائرلیس سسٹم نہیں ہے۔ آگ کی اطلاع فائر اسٹیشنز پر ٹیلی فونز کے ذریعے دی جاتی ہے۔ گاڑی میں وائرلیس سسٹم نصب نہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور متاثرہ مقام پر بروقت پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ شہر میں 30 فائر اسٹیشنز موجود ہیں۔ جن میں سینٹرل فائر اسٹیشن، صدر فائر اسٹیشن، ناظم آباد فائر اسٹیشن، لیاری فائر اسٹیشن، سائٹ فائر اسٹیشن، کورنگی فائر اسٹیشن، لانڈھی فائر اسٹیشن، گلستان مصطفیٰ فائر اسٹیشن، اورنگی ٹائون فائر اسٹیشن، شاہ فیصل فائر اسٹیشن، منظور کالونی فائر اسٹیشن، نارتھ کراچی فائر اسٹیشن، بلدیہ فائر اسٹیشن، ہاکس بے فائر اسٹیشن، ٹرک اڈا فائر اسٹیشن، بولٹن مارکیٹ فائر اسٹیشن، گلستان جوہر فائر اسٹیشن، کیٹل کالونی فائر اسٹیشن، سوک سینٹر فائر اسٹیشن، ملیر، گلشن اقبال فائر اسٹیشن، سپر ہائی وے فائر اسٹیشن، سائٹ سپر ہائی وے فائر اسٹیشن، سائٹ ایسوسی ایشن فائر اسٹیشن، کاٹی کورنگی فائر اسٹیشن اور نارتھ کراچی سمیت دیگر فائر اسٹیشنز شامل ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 15 فائر اسٹیشن فعال ہیں۔ باقی فائر اسٹیشنز عملہ نہ ہونے پر جزوی بند ہوگئے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ کورنگی فائر اسٹیشن پر عملہ صرف صبح کی شفٹ میں کام کرتا ہے اور دوپہر اور رات کے اوقات میں بند ہوجاتا ہے۔ نارتھ کراچی، گلشن معمار، سپر ہائی وے اور بلدیہ ٹاون فائر اسٹیشنز کی بھی یہی صورتحال ہے۔ ٹرک اڈا فائر اسٹیشن، کیٹل کالونی فائر اسٹیشن، سائٹ ایسویسی ایشن فائر اسٹیشن، فیڈرل بی ایریا، بن قاسم فائر اسٹیشن اکثر و بیشتر عملہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں۔ کورنگی انڈسٹریل ایریا میں آتشزدگی کے خوفناک واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ اسی طرح گزشتہ دنوں شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں خوفناک آتشزدگی سے 50 سے زائد دکانیں جل کر خاکستر ہوگئی تھیں۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ فائر بریگیڈ کی صرف ایک گاڑی آگ بجھانے کیلئے آئی۔ جبکہ دوسری گاڑی کیلئے انہیں گھنٹوں انتظار کرنا پڑا۔ جس کے باعث آگ نے پوری مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ہر اسٹیشن پر 2 گاڑیاں کھڑی کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ دو گاڑیوں کے ساتھ 4 فائر مین، ایک حولدار، ڈرائیور اور لیڈنگ مین کو بھی تعینات کرنے کا کہا گیا۔ لیکن ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ فائر اسٹیشنز پر صرف ڈرائیور یا پھر ایک فائر مین موجود ہوتا ہے۔ آگ لگنے کی اطلاع موصول ہوتی ہے تو فائر اسٹیشن پر عملہ کام کرنے آتا ہے۔ دیکھ بھال کا نظام بہتر نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں ملازمین و افسران گھروں میں بیٹھ کر آرام کررہے ہیں۔ کسی بھی فائر اسٹیشن پر آج تک سروے نہیں کیا گیا کہ آیا وہاں عملہ موجود ہے بھی یا نہیں۔ آگ بجھانے کیلئے فائر بریگیڈ عملے کو کیمیکل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گوگلز اور فائر مین ہیلمٹ سمیت دیگر چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مذکورہ آلات گزشتہ کئی برسوں سے محکمہ کو فراہم ہی نہیں کیے گئے۔ عملہ اکثر و بیشتر سہولیات نہ ہونے کا شکوہ کرتا ہے۔ حتی کہ ان کے پاس آگ بجھاتے وقت پہننے والے جوتے بھی موجود نہیں۔ جس کے باعث آتشزدگی کے واقعات میں فائر بریگیڈ کا عملہ زخمی بھی ہو جاتا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق کراچی فائر بریگیڈ سب سے زیادہ سابق میئر وسیم اختر اور سابق چیف فائر افسر مبین احمد کے دور میں تباہ ہوا۔ وسیم اختر کے دور میں گاڑیوں کو کھڑی کرکے ناکارہ بنا کر ان کے پارٹس فروخت کئے گئے۔ جبکہ کیمیکل گلف، فیس ماسک، ٹارچ، لیدر گلف، ربر ہینڈ گلف، گوگلز اور فائر مین ہیلمٹ سمیت دیگر چیزوں کیلئے کئی بار بجٹ جاری ہوا۔ لیکن عملہ ہمیشہ آلات سے محروم رہا۔ وسیم اختر اور سابق چیف فائر افسر مبین احمد کے دور میں متحدہ رہنمائوں کے رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر بھی تعینات کیا گیا۔ محکمہ فائر بریگیڈ میں سب سے زیادہ سیاسی بھرتیاں 2009ء میں کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ فائر بریگیڈ میں 12 مئی کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار متحدہ کارکنان محکمہ فائر بریگیڈ میں اہم عہدوں پر براجمان ہیں۔ سانحہ 12 مئی میں ملوث فائر بریگیڈ کے ملازمین اور افسرا ن کو2016ء میں حساس اداروں نے محکمہ کے مختلف دفاتر اور علاقوں سے گرفتار کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ وسیم اختر کے دور میں ایسے ملازمین کو فائر اسٹیشن افسر تعینات کیا گیا جن کا محکمے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور بعض ایسے ملازمین موجود تھے جو گریڈ 5 میں ملازمت کر رہے تھے۔ تاہم وسیم اختر کے دور میں انہیں گریڈ 17 دے کر اہم عہدہ دے دیا گیا۔ سابق چیف فائر افسر مبین احمد کی تعیناتی پر بھی سینئر افسران نے کئی بار اعتراضات اٹھائے۔ لیکن وسیم اختر کے چہیتے ہونے کے باعث انہیں عہدے سے نہ ہٹایا جاسکا۔
مذکورہ معاملات پر ’’امت‘‘ کو چیف فائر افسر اشتیاق احمد نے بتایا کہ ’فائر بریگیڈ میں 26 گاڑیاں موجود ہیں۔ جبکہ 2 اسنار کل اور ریسکیو کی 2 گاڑیوں کا بھی بندوبست کرلیا گیا ہے۔ جو جلد کام کرتی دکھائی دیں گی‘۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ علم ہے کہ فائر اسٹیشنز پر سروے نہیں کیا جاتا۔ لیکن اب ان کی مکمل نگرانی کروائی جائے گی۔ اور یہ کہ تمام فائر اسٹیشنز نہیں کچھ ایسے فائر اسٹیشنز ہیں جہاں ڈرائیور کی کمی کا سامنا ہے۔ ٹرک اڈا فائر اسٹیشن کو بھی فعال کرنے کے انتظامات مکمل کرلیے ہیں۔ ہیلپ لائن اس لئے بند ہوگئی کہ جب سے سوک سینٹر سے کے ایم سی آفس معاملات شفٹ ہوئے۔ اس کے بعد سے ہیلپ لائن پر توجہ نہیں دی گئی۔ وائرلس سسٹم کے ناکارہ ہونے بھی علم ہے۔ لیکن ہم نے کمشنر کراچی کے دفتر اور 1122 ریسکیو پر اپنے نمائندے بٹھا رکھے ہیں۔ جو وہاں سے کام کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے بتایاکہ فائر بریگیڈ عملے کو آلات جلد فراہم کردیئے جائیں گے۔ کچھ آلات مل چکے ہیں۔ کچھ رہ گئے ہیں۔ جیسے ہی سامان مکمل ہوگا تقسیم کر دیں گے۔ مجھے تعینات ہوئے 2 ماہ ہوئے ہیں۔ لیکن ہم بہتری کیلئے تمام اقدامات کریں گے۔ اس حوالے سے ہم ایڈمنسٹریٹر کراچی اور دیگر افسران سے بھی رابطہ کریں گے اور معاملات سے آگاہ کریں گے۔
’’امت‘‘ کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ترجمان نے بتایا کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب نے تقریب کے بعد ہی آلات فائر اسٹیشن افسرکو تقسیم کردیئے تھے۔ کوئی بھی فائر اسٹیشن بند نہیں۔ سب چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اگر فائر اسٹیشن کا دروازہ باہر سے بند ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دفتر بند ہوگیا ہے۔ جو فائر اسٹیشن آدھی ڈیوٹی کر رہا ہے۔ پھر وہ فائر اسٹیشن ہی نہیں ہے۔ وائرلیس سسٹم اور ہیلپ لائن کئی برسوں سے بند ہے اور اس کو بحال کرنے کیلئے فنڈ کی کمی کا سامنا ہے۔ نیا سسٹم نصب کرنے کیلئے کروڑوں روپے فنڈز کی ضرورت ہے۔ محکمہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی تعداد بھی زیادہ ہیں اور محکمے میں کوئی سیاسی بھرتی نہیں ہوئی ہے۔